امیرالمومنین (علیہ السلام) نفس رسول (ص)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: آیت مباہلہ اور آیت برائت کے واقعہ سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ نفس رسول (ص) ہونے کا اعزاز صرف حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کو حاصل ہے، نیز اہلسنت نے بھی کئی روایات اور دلائل پیش کیے ہیں کہ آپ ہی نفس رسول (ص) ہیں۔

امیرالمومنین (علیہ السلام) نفس رسول (ص)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نفس رسول (ص) قرآن کی روشنی میں
واقعہ مباہلہ میں: قرآن کریم اور اہل بیت (علیہم السلام) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایات میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بہت سارے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے آنحضرت کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ، نفس رسول (ص) ہیں۔ آیت مباہلہ میں نجران کے نصرانیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا: "فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"، [سورۂ آل عمران؛ 61]"پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں"۔ اس آیت کریمہ میں "أَنفُسَنَا" (ہماری جانوں) سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں۔ شیعہ اور اکثر اہلسنت مفسرین نے اس بات کا اقرار کیا ہے اور اہلسنت کے تاریخ نویس اور محقق علماء نے اپنی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) "نفس پیغمبر" ہیں۔[1]
اہلسنت کے مفسرین جیسے زمخشری[2]، فخررازی[3]، بیضاوی[4] وغیرہ نے کہا ہے کہ آیت میں «ابناءنا» (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین(ع)، اور «نساءنا» (ہماری عورتوں) سے مراد فاطمه زهرا (س) اور «انفسنا») ہماری جانوں( سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔
آیت اللہ جوادی آملی تحریر فرماتے ہیں کہ اس بات کی سند کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) جان پیغمبر (ص) کے مقام پر ہیں، صرف آیت مباہلہ سے مختص نہیں، بلکہ اسے دیگر نقل سے، بلکہ اسے خطبہ قاصعہ سے مدد لیتے ہوئے بعض آیات کے تفسیری تجزیہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔[5]
آیات برائت کا ابلاغ: آیت برائت کا واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر کو سورہ برائت کی آیات کے ابلاغ کے لئے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا، لیکن جناب جبرئیل، اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لے کر آئے کہ "لایُؤَدّی عَنْکَ اِلّا اَنْتَ اَوْ رَجُلٌ مِنْکَ"[6] یہ آیات یا خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اس شخص کے ذریعے جو آنحضرت سے ہے، ابلاغ ہونی چاہئیں، تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو جو آیت مباہلہ کی بنیاد پر نفس اور جان پیغمبر (ص) کے طور پر متعارف ہوئے تھے، ان آیات کے ابلاغ کے لئے بھیجا۔[7]

نفس رسول (ص) کے معنی اور مصداق
اس آیت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فضائل و کمالات میں فرق نہیں ہے، جو فضیلت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے، امیرالمومنین (علیہ السلام) بھی اس کے حامل ہیں، یعنی اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں تو نفس رسول (ص) بھی معصوم ہیں، اگر آنحضرت علم غیب کے حامل ہیں تو نفس رسول (ص) بھی علم غیب کے حامل ہیں اور اسی طرح دیگر صفات۔ البتہ آنحضرت کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔
اہلسنت کے علامہ قاضی ایجی نے تحریر کیا ہے کہ "انفسنا سے مراد خود پیغمبر (ص) نہیں ہیں، کیونکہ انسان اپنے آپ کو دعوت نہیں کرتا، بلکہ اس سے مراد امام علی (ع) ہیں اور صحیح روایات اور اہل نقل کے ہاں ثابت شدہ روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پیغمبر (ص) نے امام علی (ع) کو اس مقام کے لئے دعوت دی اور یقیناً علی (ع) کا نفس وہی محمد (ص) کا نفس حقیقتاً نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد، ان دو کا فضل و کمال میں برابر ہونا ہے اور صرف نبوت مستثنی ہوتی ہے اور لفظ »انفسنا «دیگر کمالات میں حجت ہے، لہذا امام علی (ع) پیغمبر (ص) کے ساتھ سوائے نبوت کے، فضیلت میں برابر ہیں، بنابریں امام علی (ع) امت کے سب سے زیادہ افضل شخص ہیں"۔[8]

امیرالمومنین (ع) کا نفس رسول (ص) ہونا اہلسنت کی روایات میں
پہلی روایت: زید بن یثیع نے ابوذر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا كَنَفْسِي، يُنْفِذُ فِيهِمْ أَمْرِي، فَيَقْتُلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَيَسْبِيَ الذُّرِّيَّةَ». فَمَا رَاعَنِي إِلا وَكَفُّ عُمَرَ فِي حُجْزَتِي مِنْ خَلْفِي: مَنْ يَعْنِي؟ فَقُلْتُ: مَا إِيَّاكَ يَعْنِي، وَلا صَاحِبَكَ، قَالَ: فَمَنْ يَعْنِي؟ قَالَ: خَاصِفُ النَّعْلِ، قَالَ: وَعَلِيٌّ يَخْصِفُ نَعْلاً"[9]، "بنو ولیعۃ (حضرموت کی سرزمین کے حکمرانوں) کو چاہیے کہ اس طریقہ کار سے دستبردار ہوجائیں، یا میں ایسے مرد کو ان کی طرف بھیجوں گا جو میرے جیسا ہے۔ وہ میرے امر کو ان میں جاری کرے گا، ان کے جنگجووں کو قتل کردے گا اور ان کی اولاد کو قیدی کرلے گا"، ابوذر کہتے ہیں: میں آنحضرت کی بات سے تعجب کررہا تھا کہ عمر نے پیچھے سے میرے پہلو کو پکڑا اور کہا: پیغمبر کا مقصود کون ہے؟ میں نے کہا: آنحضرت کا مقصود تم اور تمہارے دوست (ابوبکر) نہیں ہو۔ اس نے کہا: پھر کون مقصود ہے؟ میں نے کہا: جو شخص جوتے کو ٹانک رہا ہے اور علی (ع) جوتے کو ٹانک رہے تھے۔
دوسری روایت: علامہ اہلسنت ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن شداد سے نقل کیا ہے کہ آل سَرح کا ایک گروہ رسول اللہ (ص) کے پاس آیا تو ان سے رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "لَتُقِيمُنَّ الصَّلَاةَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّكَاةَ وَلَتَسْمَعُنَّ وَلَتُطِيعُنَّ أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إلَيْكُمْ رَجُلًا كَنَفْسِي، يُقَاتِلُ مُقَاتِلَتَكُمْ وَيَسْبِي ذَرَارِيَّكُمْ، اللَّهُمَّ أَنَا أَوْ كَنَفْسِي»، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ"[10]، " نماز قائم کرتے ہو اور زکات دیتے ہو اور (احکام کو) سنتے ہو اور اطاعت کرتے ہو، یا کسی مرد کو تمہاری طرف بھیجتا ہوں جو میرے جیسا ہے، تمہارے جنگجووں سے جنگ کرے گا اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کرلے گا، یا میں خود جاوں گا یا جو شخص میرے جیسا ہے، پھر آنحضرت نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا"۔
تیسری روایت: حاکم نیشابوری نے اپنی کتاب المستدرک میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے مکہ فتح کرلیا تو پھر طائف تشریف لے گئے اور آٹھ یا نو دن وہاں پر قبضہ کیا، قبضہ کے ختم ہونے اور طائف کو فتح کرنے کے بعد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَكُمْ فَرَطٌ، وَإِنِّي أُوصِيكُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا مَوْعِدُكُمُ الْحَوْضُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتُقِيمُنَّ الصَّلاةَ، وَلَتُؤْتُونَ الزَّكَاةَ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلا مِنِّي، أَوْ كَنَفْسِي فَلَيَضْرِبُنَّ أَعْنَاقَ مُقَاتِلِيهِمْ، وَلَيَسْبِيُنُّ ذَرَارِيَّهُمْ»، قَالَ: فَرَأَى النَّاسُ أَنَّهُ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ أَوْ عُمَرَ، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: «هَذَا[11]، "اے لوگو! میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت سے نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، تمہاری وعدہ گاہ حوض (کوثر) ہے، مجھے قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، نماز قائم کرتے ہو اور زکات ادا کرتے ہو یا میں ایک مرد تمہاری طرف بھیجوں گا جو مجھ سے ہے یا مجھ جیسا ہے تاکہ وہ تمہارے جنگجووں کی گردنیں اڑا دے اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کرلے"۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ مرد ابوبکر یا عمر ہوگا، لیکن رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: یہ ہے وہ مرد۔
چوتھی روایت: علامہ اہلسنت طبرانی نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے ولید بن عقبہ کو بنی ولیعۃ کی طرف بھیجا، ولید اور ان کے درمیان جاہلیت کے دور میں خون بہایا گیا تھا، جب انہوں نے ولید کے آنے کی خبر سنی تو اس کے استقبال کے لئے باہر نکلے، ولید نے سمجھا کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور کہا: بنی ولیعۃ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے زکات ادا نہیں کی۔ جب یہ خبر بنی ولیعۃ تک پہنچی تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا: ولید جھوٹ بولتا ہے، ہاں ہمارے درمیان خون بہایا گیا تھا، ہمیں خوف تھا کہ وہ کہیں اس وجہ سے ہمیں سزا نہ دے (لیکن ہم اسے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے)۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:" لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا عِنْدِي كَنَفْسِي، يَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ، وَيَسْبِي ذَرَارِيَّهُمْ، وَهُوَ هَذَا " ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى كَتِفِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي الْوَلِيدِ:« يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ» الآيَةَ[12]"، "بنوولیعۃ اپنے کاموں سے دستبردار ہوجاتے ہیں یا میں ایک ایسے مرد کو ان کی طرف بھیجتا ہوں جو میرے نزدیک مجھ جیسا ہے، تمہارے جنگجووں کو قتل کردے گا اور تمہارے گھرانہ کو قیدی کرلے گا اور وہ یہ مرد ہے، پھر اپنا ہاتھ علی ابن ابی طالب کے شانہ پر رکھا"، جابر کہتے ہیں کہ اللہ نے ولید کے بارے میں یہ آیت نازل کی: "ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو"…۔
پانچویں روایت: احمد بن حنبل نے مطَّلب بن عبد الله سے نقل کیا ہے کہ جب قوم ثقیف کا ایک وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آیا تو آنحضرت نے ان سے فرمایا:  "لَتُسْلِمُنَّ أَوْ لَنَبْعَثَنَّ رَجُلا مِنِّي، أَوْ قَالَ: مِثْلَ نَفْسِي، فَلَيَضْرِبَنَّ أَعْنَاقَكُمْ، وَلَيَسْبِيَنَّ ذَرَارِيَّكُمْ، وَلَيَأْخُذَنَّ أَمْوَالَكُمْ»، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا تَمَنَّيْتُ الإِمَارَةَ إِلا يَوْمَئِذٍ، جَعَلْتُ أَنْصِبُ صَدْرِي رَجَاءَ أَنْ يَقُولَ هُوَ هَذَا، قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ فَأَخَذَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «هُوَ هَذَا هُوَ هَذَا[13]، "اسلام کو قبول کرلوگے یا ہم ایسے ایک مرد کو بھیجیں گے جو مجھ سے ہے ، یا آپ نے فرمایا: مجھ جیسا ہے، تو وہ  تمہاری گردنیں اڑا دے گا اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کرلے گا اور تمہارا مال لے لے گا"، تو عمر کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے ہرگز حکومت کی آرزو نہیں کی، مگر اس دن۔ میں نے اپنا سینہ تان لیا اس امید سے کہ پیغمبر کہیں کہ وہ مرد یہ ہے، راوی کہتا ہے: پھر آنحضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے تو آنحضرت نے علی (ع) کا ہاتھ پکڑا، اس کے بعد فرمایا: وہ مرد یہ ہے، وہ مرد یہ ہے"۔

اہل بیت (علیہم السلام) کی زبانی واقعہ مباہلہ کی یاددہانی
اہل بیت (علیہم السلام) نے مختلف مقامات پر واقعہ مباہلہ پر استناد کی ہے، جیسے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)، امام حسن (علیہ السلام)، امام حسین (علیہ السلام)، امام جعفر صادق (علیہ السلام)، امام موسی کاظم (علیہ السلام)، امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام)۔ اختصار کے پیش نظر ہر امام کے واقعہ کو بیان نہیں کیا، صرف حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ مامون نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کے جد (علی ابن ابی طالب) کی خلافت پر کیا دلیل ہے؟ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "انفسنا"[14]۔

نتیجہ: قرآنی نقطہ نگاہ سے مباہلہ اور آیات برائت کا مشرکین کو ابلاغ کرنے کے واقعات میں اور اہل بیت (علیہم السلام) کے بیانات اور اہلسنت علماء نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات نقل کی ہیں اور نیز خود بھی اقرار کیا ہے، اس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ الصلاۃ والسلام) نفس رسول ہیں یعنی امام المتقین مقام، فضائل اور کمالات کے لحاظ سے سوائے مقام نبوت کے سیدالمرسلین کے برابر ہیں، تو جب امیرالمومنین (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے برابر نہیں ہے تو بلافصل آپ کے بعد آنحضرت کے علاوہ کوئی مسند خلافت پر بیٹھنے کا حقدار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] كامل ابن اثير ج 2 ص 293، صحيح مسلم ج 7 ص 120، تفسير طبرى ج 3 ص 192، مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 185، سنن ترمذى فى فضائل على، اور تاريخ الخلفاء سيوطى ص 65، احقاق الحق ج 3 ص 46 تفسير فخر رازى ج 8 ص 85، جامع الاصول ج 9 ص 470۔
[2] تفسیر الکشاف، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[3] التفسیر الکبیر، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[4] تفسیر انوار التنزیل و اسرار التأویل، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
[5] سیره پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله در قرآن، ج2، 184۔
[6] مسند احمد ابن حنبل ج2 ص427۔
[7] مغازی واقدی ج3 ص1077۔ ارشاد مفید ص33۔
[8] شرح مواقف عضدالدین الایجی ج3 ص 624۔
[9] السنن الكبرى نسائي ج 5  ص 127۔ خصائص اميرمؤمنان علي بن أبي طالب، ج 1  ص 89، ح72۔
[10] الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6   ص 369، رقم: 32093۔
[11] المستدرك علي الصحيحين، ج 2 ص 131، ح2559۔
[12] المعجم الأوسط، ج 4 ص 133، ح3797۔
[13] فضائل الصحابة، أحمد بن حنبل، ج 2 ص 593۔
[14]موسوعة الامام على ‏بن ابى‏ طالب، محمدی رى شهرى ج 8 ص 10 بنقل از طرائف المقال۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 42