خلاصہ: قیام امام حسین علیہ السلام، اسلام کے تحفظ و بقا کے ساتھ ساتھ انسانیت کی نجات کا سامان فراہم کرنے کے لئے بھی تھا، یہی سبب ہے کہ یہ واقعہ، آج تک انسانیت کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لے جاتا ہے اور امام علیہ السلام سے وابستگی کا بھرپور اثر دکھاتا ہے۔
سید الشہدا حسین ابن علی(علیہما السلام) کے غم میں نوحہ و ماتم، آہ و بکا، اس لئے کہ دل رنج و غم سے متاثر ہوتا ہے اور انسان، کربلا کے دردناک واقعہ پر اشک غم بہا کر اپنا انسانی فرض نبھاتا ہے۔ اور اس لئے بھی تاکہ یاد مظلوم کے ذریعہ وقت کے ظالموں کو ان کی اوقات بتائی جائے اور دنیا کے مظلوموں کو ڈھارس دی جائے، اس لئے بھی تاکہ خاندان نبوت ورسالت سے اپنے دلی لگاؤ اور عقیدت اسلامی کا اظہار ہو سکے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ان کے نواسہ کا پرسہ دے سکیں، اس لئے بھی کہ ہم ان کے مقصد کے امین اور انکے مشن کے پاسدار ہیں، اس لئے بھی کہ وہ شاہراہ جسے سن ۶۱ ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون پاک سے کربلا کے میدان میں بنائی تھی، دنیا اس پر چلے، خصوصا ہماری نئی نسل اس شاہراہ پر قدم رکھے اور خیال رہے کہ آج شیعت ایک طولانی اور نہایت مشکل سفر کر کے یہاں تک پہونچی ہے۔
اور پھر زندگی میں شہادت کی غم انگیز داستان کو دہراتے رہنا، زندگی کو آسان اور مقصد زندگی کو بلند بناتا ہے اور ذہن و دل میں مقصد کربلا کو جگاتے رہنے سے حسین شہید کی عملی کامیابی اور یزیدیت کی شکست ہوتی ہے۔
یاد حسین اپنی جگہ پر خود ہمیں، آپکی شخصیت کو پہچاننے کی دعوت دیتی ہے، اس طرح دھیرے دھیرے یہ یاد آپ سے عقیدہ و محبت پر ہمیں اکساتی ہے پھر آپ سے تعلق و وابستگی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ اگر یہ احساس جاگ اٹھے تو پھر کامیابی یقینی ہے۔
شخصیت امام حسین علیہ السلام کو پہچاننا جیسے آپ کربلا میں ظاہر ہوئے اور آپ کے چھوڑے ہوئے ورثے کو پلٹ کر دیکھنا اور اس سے زندگی کی روشنی لینا، حسینی بیداری ہے۔
جہاں ذلت نہیں عزت و عظمت ہے، اپنوں اور دوسروں پر ظلم نہیں، محبت و مساوات کی نمائش ہے۔ باطل نہیں، حق کی حمایت ہے، شرک و بت پرستی نہیں، وحدانیت و خلوص کی حکومت ہے، دنیا پرستی نہیں، خدا پرستی ہے، غرباء پروری، یتیم نوازی و غریب نوازی ہے، جہاں دنیا سے بے رخی اور آخرت کی طرف توجہ ہے۔ اگر اس پہلو کو دیکھیں تو جو عظمت حسین علیہ السلام دلوں میں اجاگر ہوگی اس کا تصور بھی نہایت نفیس اور بلند ہوگا، امام عالی مقام کی نگاہ میں، جب سب کچھ قربان ہوگا تب جاکر شہادت راہ خدا نصیب ہوگی، اس لئے نہ اب اکبر علیہ السلام، نہ قاسم علیہ السلام، نہ علی اصغر علیہ السلام، نہ ہی چہیتی بہن، نہ ہی زوجہ اور نہ ہی پیاری سکینہ، اب تو بس نور الہی اور جمال خدائی کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہی بشریت کی کامیابی کا واحد راستہ ہے جس پر چلنا بہت سخت لیکن حسین اور خوبصورت ہے، اور امام حسین علیہ السلام نے اس سخت کام کو آسان اور اس زیبائی و حسن کو مجسم کر دیا۔ یقینا؛
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب سید مشاہد عالم رضوی صاحب کے مضمون سے استفادہ، بشکریہ بروشر’’ دین و زندگی‘‘(شمارہ ۲) مرکز تبلیغات اسلامی ہلور ۔
Add new comment