خلاصہ: کربلا کی بقا، حقیقت میں پیغمبر اکرم (ص) اور امیرالمومنین (ع) سے لیکر قیام قیامت تک بشریت کے دشمنوں کے خلاف اظہار نٖرائت اور صدائے احتجاج کا نام ہے اور ہر سال یہی پیغام لیکر محرم کا چاند فلک پہ نمودار ہوتا ہے۔
ظاہری آنکھوں سے تاریخ پڑھیئے تو کربلا چند ساعت کی مختصر سی لڑائی ہے جس میں بہتر یا زیادہ سے زیادہ ایک سو کچھ افراد اپنی بے سر و سامانی کے ساتھ ہزاروں کے لشکر سے ٹکرائے اور موت کی آغوش میں جا سوئے۔ ان میں وہ بوڑھے بھی تھے جنھیں سہارا دے کر گھوڑے پر بٹھایا گیا۔ وہ جوان بھی تھے جن کی تلواروں نے ذوالفقار سے شجاعت و عدالت کا درس لیا تھا۔ وہ کمسن بھی تھے جو جنگ کو بچوں کا کھیل سمجھ کر ماؤں کی گودیوں سے مچلتے ہوئے میدان میں آگئے تھے اور ان کے پس پشت عورتوں اور معصوم بچوں کا ایک قافلہ تھا جس کی نگہبانی و سالاری کے لئے ایک بیمار رہ گیا تھا یا تیغ علی علیہ السلام کی ورثہ دار زبان زینب علیہا السلام۔
آخر چند گھنٹوں کی اسی مختصر لڑائی کو آج تک کیوں یاد کیا جاتا ہے؟!
اس لئے کہ اس جنگ نے لا الہٰ الا اللہ کی بنیاد مضبوط کر دی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سارے غزووں اور سریوں کی فتحوں پر مہر توثیق ثبت کی، جمل و صفین و نہروان کا آخری فیصلہ کیا، صلح حسن علیہ السلام کے معاہدے کے ساتھ معاویہ ملعون کی ملوکیت کی پیمان شکن سیاست کا پردہ چاک کیا۔ نفاق کے چہرے سے نقاب اٹھائی اور ایمان کا چہرہ روشن کر دیا۔ اگر کربلا کی جنگ وقوع پذیر نہ ہوتی تو اسلام کی رسالت و امامت، ملوکیت کے تخت تلے دب کر ۶۱ھ میں ختم ہو گئی ہوتی۔
اس جنگ میں ظلم کے لشکروں کے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے پامال ہو جانے والی لاشوں نے اسلام کو نئی زندگی بخشی، اس جنگ کے شہیدوں کی بے کفنی نے چادر تطہیر کا سایہ انسانیت کے سر سے نہ اٹھنے دیا۔ اس جنگ کے اسیروں کی مظلومی و جراٴت نے مسلمانوں کو بے باکی و حق گوئی کا درس دیا۔ آنے والے زمانے کے آشفتہ سروں کو بتایا کہ اسیری، آزادی کی تمہید ہے۔ گرفتاری طوق و سلاسل عزت اور تخت نشینی و خون آشامی ابدی ذلت۔
کسی جنگ کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد، اس میں قتل ہونے والوں کی قلت اور اس کے جاری رہنے کی مدت سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس کے فوری اور دور رس اثرات سے لگایا جاتا ہے۔ جنگ کی قاطعیت و عظمت کا یہ معیار بھی کربلا نے قائم کیا۔
کربلا نے ایک طرف سچے اسلام اور اس کی اقدار کا تحفظ کیا اور خون حسین علیہ السلام نے ان اقدار کی بقا کی ضمانت لی دوسری طرف کربلا نے فکر و نظر کے جادہ روشن کرکے عالم اسلام کی ذہنی و علمی ترقی کا اثاثہ فراہم کیا۔ تیسری طرف ایسے جذبہٴ آزادی کو فروغ دیا جو ہر دور میں انقلابی رجحانات و تحریکات کو اسلحے فراہم کرتا رہا۔
کربلا کا فیضان صرف عالم اسلام ہی سے مخصوص نہیں۔ تاریخ انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ کربلا کے کثیر الجہات اثرات کو دیکھا جائے تو کربلا، تاریخ اسلام ہی کا انقلاب آفرین موڑ نہیں، تاریخ انسانیت کا وہ روشن سنگ میل بن کر ابھرتی ہے جس نے تمام انقلابوں، آزادی کی تحریکوں اور عدل و مساوات کے نظریات کے لئے راستے کھول دیئے۔
اسلامی تاریخ میں کربلا کی انقلاب آفرین اہمیت کو سمجھنے کے لئے ابوالاعلی مودودی کی کتاب ” خلافت و ملوکیت “ اور طہٰ حسین کی ” علی ﷼ اور ان کے فرزند “ پڑھنا کافی ہے۔ صفین میں ” لا حکم الا لِلّٰہ “ کے نعرہ نے ناگزیر شکست سے بچنے کے لئے جس طرح قران کو نیزہ پر بلند کیا وہ تمہید تھی اس بات کی کہ آج قرآن صامت نیزے پر ہے تو کل قرآن ناطق بھی نیزے پر بلند کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کربلا عصر حاضر میں فلسطین، کشمیر، یمن، بحرین، شام، عراق، افغانستان، پاکستان، برما، نیجریا سمیت دنیا بھر کے طالموں کے خلاف اظہار احتجاج کیساتھ پیغام ہے کہ جس طرح یزید اور اسکا لشکر اپنے مظالم سمیت صٖفحہ تاریخ سے مٹ کر قیامت تک کے لئے مردہ باد ہوا، جس طرح عراق کا یزید زمان صدام اپنی طلم کی چکی کا خود شکار ہوکر رسوا ہوا، جس طرح لیبیا مصر اور یمن کے بادشاہ حضرات انکی عوام کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے وہ دن دور نہیں کہ جب آل سعود وآل خلیفہ بھی اپنے آباٗ واجداد یزیدیوں کے ہمراہ فی النار ہونگے اور دنیا میں صرف اور صرف حق رہے گا اور حق کے پیروکار۔
Add new comment