امام علی
ہجرت کا دسواں سال تھا اور حج کا موسم اور حجاز کا میدان ایک کثیر اجتماع پر گواہ تھا ، رسول کی امت ایک نعرہ کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب رواں دواں تھی ، اس سال حج کے موقع پر کچھ اور ہی شوق و اشتیاق تھا ، مسلمان جلدی جلدی منزلوں کو طے کرتے ہوئے خود کو مکہ اور بیت اللہ پہونچا رہے تھے ، لبیک اللھم لبیک ک
جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی محبت بھری انکھیں دنیا سے بند کرلیں اور افتاب رسالت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ، اس وقت موقع کے متلاشی افراد سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے اور ایک ہنگامے کے بعد حکومت کی باگ ڈور ابوبکر فرزند ابوقحافہ کے سپرد کردی جبکہ پیغمبر اسلام (ص) پہلے ہی خ
ابوعیسی محمد ترمذی متوفی (۲۰۹ ـ ۲۷۹ هجری قمری) نے اپنی کتاب سنن ترمذی میں کہ جو علم حدیث اور روایت کی دنیا میں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں سے ہے اور اسے صحاح ستہ میں سے شمار کیا جاتا ہے ، واقعہ غدیر کو لکھتے ہوئے رسول اسلام (ص) کی یہ حدیث تحریر فرمائی ہے : « مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَ
واقعہ غدیر خم اور ۱۸ ذی الحجہ کو امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اعلان ولایت کو لا تعداد راویوں نے نقل کیا ہے کہ ان میں زیادہ تر روایتیں اہل سنت علمائے کرام اور راویوں سے نقل ہوئی ہیں ۔
اہل سنت مفسرین نے اپنی لاتعداد تفاسیر میں واقعہ غدیر خم کا تذکرہ کیا ہے ، ہم اپنی اس مختصر سے تحریر میں کچھ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔
اگر چہ خداوند متعال نے عشق و محبت انسانوں کی فطرت اور طنیت میں قرار دیا ہے مگر امام علی علیہ السلام کی محبت ہر کسی کو نہیں دی ہے کیوں کہ ہر کسی کے ظرف میں محبت کے اس گراں بہا اکسیر اور امرت کو قبول کرنے کی توانائی موجود نہیں ہے ۔
واقعہ غدیر اسلامی اقداروں کا بیانگر اور روز غدیر انہیں اقداروں کے اعلان کا دن ہے ، ہم نے اس تحریر میں اس عظیم واقعہ کے سلسلہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خطبہ میں پوشیدہ نکات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
روایت کے مطابق غدیر کا دن ، روز علمبرداری ہے « يوم الدليل على الرواد » ۔