امام علی کی محبت نجات کا امرت

Wed, 07/06/2022 - 06:16

اگر چہ خداوند متعال نے عشق و محبت انسانوں کی فطرت اور طنیت میں قرار دیا ہے مگر امام علی علیہ السلام کی محبت ہر کسی کو نہیں دی ہے کیوں کہ ہر کسی کے ظرف میں محبت کے اس گراں بہا اکسیر اور امرت کو قبول کرنے کی توانائی موجود نہیں ہے ۔

خداوند متعال کا یہ عظیم لطف و کرم ہے کہ اس نے امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ ‌السلام کی محبت کو مومنین کے دلوں کا امرت قرار دیا ہے جیسا کہ اس پر ایمان یا اس کا انکار کفر و نفاق کا معیار ہے ، روای نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نقل کرتے ہوئے کہا : « وَ قَدْ قَالَ لَهُ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : يَا عَلِيُّ حُبُّكَ إِيمَانٌ وَ بُغْضُكَ نِفَاقٌ وَ كُفْرٌ » ؛ [1] علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض ، نفاق و کفر ہے ، حتی بعض روایات میں نقل ہے کہ بعض انبیاء اور اولیاء الھی کے انتخاب کا معیار ، امام علی علیہ السلام کی ولایت اور اپ سے محبت ہے ۔

قرآن کریم نے محبت کے حوالے سے ارشاد فرمایا : « إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا » ؛ [2] بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل انجام دیا ، خدائے رحمان ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرے گا ۔ »        

اس ایت کریمہ کے شان نزول کے سلسلہ میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے امام علی (ع) سے فرمایا : « قُلْ يَا عَلِيُّ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ وُدّا »  ؛ [3] اے علی ! کہئے کہ خداوندا مومنین کے دلوں میں میری محبت قرار دے ۔ اس کے بعد مذکورہ ایت کریمہ نازل ہوئی ۔

لہذا مومنین کے دلوں میں علی (ع) کی محبت خدا کا عطیہ ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا : « ہم نے ایمان کو تمھارے دلوں میں قرار دیا » [4] اور امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : « یہاں ایمان سے مراد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ہے ۔ » [5] لہذا اس ایت کا کھلا مصداق امام علی (ع) کی محبت ہے جسے خداوند متعال نے مومنین کے دلوں میں قرار دیا ہے ۔

لا تعداد احادیث و روایات میں امام علی (ع) اور دیگر ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت کے فراوان دنیاوی اور اخروی آثار و برکات نقل ہوئے ہیں ، [6] رسول اسلام (ص) نے امیرالمؤمنین علی ابن طالب اور اپنے اهل ‌بیت اطھار علیهم ‌السلام کی محبت کو انسانوں کی نجات کا وسیلہ شمار کیا اور فرمایا : « إِنَّمَا مَثَلُ‏ أَهْلِ‏ بَيْتِي‏ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِق ‏» ؛ [7] میرے اہل بیت کی محبت (ع) کشتی جناب نوح کے مانند ہے کہ جو ابھی اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس سے روگرادنی کی اور اس پر سوار ہونے سے گریز کیا وہ غرق اور ہلاک ہوگیا ۔ »  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

[1].  كفاية الأثر، خزاز رازی، ص135.

[2]. سوره مریم، آیه96.

[3].  تفسیر قمی، ج2، ص56.

[4]. سوره حجرات، آیه7.

[5].  تفسیر فرات کوفی، ص428.

[6].  خصال، صدوق، ج2، ص515.

 [7]. جامع الاحادیث، سیوطی، ج10، ص8.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86