اخلاق وتربیت
خلاصہ: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۴ کی روشنی میں گفتگو کی جارہی ہے۔
خلاصہ: ہوسکتا ہے کہ انسان مختلف لحاظ سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لے، جبکہ وہ سب لحاظ اس سے زائل ہونے والے ہیں۔
خلاصہ: دنیا کی رحمت ہر کس کو ملنے والی لیکن آخرت کی نعمت صرف اور صرف اس کے لئے ہے جو تقوی اختیار کرے۔
خلاصہ: انسان جب نعمتیں حاصل کرلیتا ہے تو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے اور تکبر کرتا ہے اور اللہ کو بھلا دیتا ہے، جبکہ وہ بے نیاز نہیں ہے، وہ پہلے کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
خلاصہ: جتنے اسباب ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور انسان کی مشکل حل ہوجاتی ہے تو درحقیقت یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، کیونکہ ہر چیز قاصر و عاجز اور قدرت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
خلاصہ: جب انسان کو نعمت مل جائے تو انسان تکبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رُخ موڑ لیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچے تو مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے، یہ دونوں حالتیں لائق مذمت ہیں۔
خلاصہ: انسان اللہ تعالیٰ کی طرف اتنا متوجہ رہے کہ نہ نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجائے اور نہ تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ناامید ہوجائے۔
خلاصہ: جب انسان کے پاس نعمتیں بڑھ جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب اس کے مکمل اختیار میں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
خلاصہ: انسان کو چاہیے کہ نعمتوں میں اللہ کو یاد رکھے اور تکلیف میں بھی اللہ کو یاد رکھے، ایسا نہ ہو کہ نعمتوں میں تکبر کرے اور تکلیف میں اللہ تعالیٰ سے ناامید ہوجائے۔
خلاصہ: اگر کسی کا پڑوسی بھوکا سوجائے تو وہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نظر میں مؤمن نہیں ہے۔