خلاصہ: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۴ کی روشنی میں گفتگو کی جارہی ہے۔
قرآن کریم کی مختلف آیات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے ایک، سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۴ ہے جس میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"، "اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کی دعوت دے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی وہ لوگ ہیں (جو دین و دنیا کے امتحان میں) کامیاب و کامران ہوں گے"۔
لفظ " وَلْتَكُن" امر ہے، یعنی لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے۔
لفظ "امت" ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جن کے درمیان ایک قسم کا اتحاد ہو، چاہے زمان یا مکان یا مقصد اور نظریے کے لحاظ سے۔ لہذا بکھرے ہوئے افراد کو "امت" نہیں کہا جاتا۔
اس آیت میں گروہ کو تین کاموں کا حکم دیا جارہا ہے:
۱۔ نیکی کی دعوت دینا۔
۲۔ اچھے کاموں کا حکم دینا۔
۳۔ برے کاموں سے منع کرنا۔
آیت کے آخر میں فلاح و کامیابی ان لوگوں کے لئے بتائی گئی ہے جو ان تین کاموں کو انجام دیتے ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دو مرحلے ہیں:
۱۔ فردی طور پر: اس مرحلہ میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔
۲۔ گروہ کی صورت میں: اس مرحلہ میں ایک گروہ ذمہ دار ہے کہ معاشرتی خرابیوں کو ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے متحد ہو کر امر بالمعروف اور نہی عن امنکر کرے۔
پہلی صورت میں سب لوگوں کی ذمہ داری ہے اور کیونکہ فردی طور پر ہے تو یقیناً اس کا اثر بھی ہر فرد کی طاقت پر منحصر ہے۔
لیکن دوسری صورت میں واجب کفائی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور کیونکہ گروہ کی صورت میں ہے تو گروہ کی طاقت وسیع حد تک ہے اور اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے شمار ہوتا ہے۔
خرابیوں سے مقابلہ کرنے اور حق کی طرف دعوت دینے کی دو صورتیں، اسلامی قوانین کے کارناموں میں سے ہیں۔
لہذا کوئی گروہ ہونا چاہیے جو معاشرے میں نیکی کی طرف دعوت دے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔
* بعض مطالب ماخوذ از: تفسیر نمونہ، ناصر مکارم شیرازی، ج۳، ص۳۴۔
*ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment