خلاصہ: جب انسان کے پاس نعمتیں بڑھ جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب اس کے مکمل اختیار میں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
انسان جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کر لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اب میرے اور میرے مال کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے، میرے پاس سب کچھ ہے، جب چاہوں اپنے مال کو استعمال کرکے اپنی ضرورت کو پورا کرسکتا ہوں، جبکہ بالکل ایسا نہیں ہے، کیونکہ پھر بھی وہ مال اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے اس آدمی کی نظروں کے سامنے نہیں تھا، اب اس کی نظروں کے سامنے آگیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس مال سے یہ آدمی ضرور لطف اندوز ہوسکے گا، کیونکہ سارا مال جس ذات کے قبضہ قدرت میں ہے وہ اگر چاہے تو یہ آدمی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، ورنہ اسے استعمال نہیں کرسکتا اور جب استعمال کررہا ہوگا تو تب بھی حقیقت میں اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور جب اس مال کو استعمال کرلے، پھر بھی وہ مال اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، اب فرق یہ ہے کہ جب اس نے مال کو استعمال کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مال کو استعمال کرنے کی اسے تکوینی طور پر اجازت دیدی تو وہ استعمال کرپایا، مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے، لہذا اسی مال کو استعمال کرنے سے پہلے کئی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں، حتی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی رکاوٹ کی وجہ سے انسان اپنے سارے مال سے محروم اور بے نصیب ہوجائے۔ لہذا جب مال انسان کے پاس آتا ہے تو حقیقی طور پر اس کے قبضہ میں نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کے قبضہ قدرت میں رہتا ہے۔ جہاں آدمی نے مال کو استعمال کیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے سابقہ مراحل کی طرف پلٹا کر اس سے واپس لے سکتا ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت ۲۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ"، "(اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment