خلاصہ: انسان اللہ تعالیٰ کی طرف اتنا متوجہ رہے کہ نہ نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجائے اور نہ تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ناامید ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے، کبھی نعمتوں کی فراوانی سے اور کبھی تکلیفوں کے ذریعے۔ انسان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ نہ نعمتوں کی فراوانی اسے اللہ کے سامنے سرکش کرے اور نہ تکلیفیں اسے اللہ کی رحمت سے ناامید کریں، یہی تو امتحان ہے۔
سورہ اسراء کی آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوساً"، "اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے"۔
جب انسان ناز و نعمت میں ہوتا ہے تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے جیسے پہلے محتاج تھا اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو پہلے بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کا محتاج تھا جیسے اب محتاج ہے۔
نہ نعمتوں کی فراوانی دیکھ کر اللہ سے رُخ موڑ لے اور نہ تکلیف میں مبتلا ہو کر اللہ سے مایوس اور ناامید ہوجائے، بلکہ دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے، کیونکہ صرف اللہ ہے جو انسان کو نعمتیں عطا فرماتا ہے اور صرف اللہ ہے جو انسان کی تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment