مقالہ فاطمہ زھراء
اگر ہمیں شہادت کی عظمت و اہمیت اور اس کے فلسفے کو قرآن اور حدیث کی نگاہ سے دیکھنا اور سمجھنا ہو تو پھر سب سے پہلے ہمیں زندگی کا مفہوم اور جودو بقا کے مفہوم اور اس کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا کو انسان کو وجود پسند ہے یا اس کا عدم ؟ کیا خدا کو اس کا (ہونا) پسند ہے یا (نہ ہونا) ؟ اس کی (بقا) پسند ہے یا اس کا (فنا) ہونا پسند ہے ؟ کیا خدا انسان کی نابودی اور ہلاک کے درپے ہے ؟ ان مندرجہ بالا سوالوں کا جواب اگر یہ دیاجائے کہ خدا کو اس کا ( نہ ہونا) نابودی اور فنا پسند ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسے پھر خدا نے کیوں (خلق) کیا ؟ کیوں اسے (وجود) عطاکیا ؟
خواتین ہر دور میں معاشرہ کا اہم حصہ شمار کی گئی ہیں کیوں کہ ہر سماج کی تعمیر میں ان کا بہت بڑا ہاتھ اور حصہ ہے مگر یہ کردار اس وقت بہتر طریقہ سے ادا ہوگا جب ان کے پاس بھی کوئی مناسب ائڈیل اور نمونہ عمل موجود ہو، گناہوں اور خطاوں سے پاک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت سے بہتر کون نمونہ عمل بن س
معاشرہ کی تعمیر میں ہمیشہ خواتین کا اہم کردار رہا ہے مگر ہر کردار کو نبھانے کیلئے ایک ائڈیل اور نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کہ زندگی تمام خواتین کیلئے بہترین نمونہ عمل ، ائڈیل اور دروس کا مجموعہ ہے ہم نے اس تحریر کی پہلی قسط میں کچھ باتوں کو پیش کیا تھا اور اب اس مقام پر
جناب سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بی بی کی اس فریاد [ اے بابا جان ! اے رسول خدا ! اے والد گرامی ! ابوبکر اور عمر نے تمھارے بعد ہمارے ساتھ کیا برا برتاو کیا !
تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار اور حکمِ قرآن کی موجودگی کے باوجود مرسلِ اعظمؐ نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے کبھی کوئ انتقام نہیں لیا۔ اس کا سبب صرف یہی تھا کہ آنحضرتؐ نے ان تمام مظالم کے قصاص کو روز قیامت کے لیے ملتوی کردیا جب الله تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب اور ان پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ صرف حضرت امیرالمومنینؑ ہی نہیں بلکہ تمام اہلبیتؐ نے ہمیشہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے کوئ قصاص نہیں لیا۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کہ زندگی دروس کا مجموعہ ہے اس حوالے سے فاطمی خواتین کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ معاشرہ کو مشکلات، مخمصے اور بے ضابطگیوں سے نجات دینے کیلئے اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لائیں اور ان دروس سے بخوبی استفادہ کریں، ہم اس مقام پر بعض باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسی عظیم شخصیت کی موجودگی کے باوجود خلفاء نے باغ فدک کے مسئلہ میں حضرت علیؑ کے فیصلے سے استفادہ کیوں نہ کیا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ باغ فدک کے مقدمہ سے متعلق بھی حضرت علیؑ نے خلیفہ اول کے سامنے قرآنی دلائل پیش کیے تھے ، مگر افسوس ابوبکر نےقرآن کے تمام دلائل کو رد کردیا۔
ایام فاطمیہؑ کی مجالس میں جہاں ذکر مصائب معصومہؑ عالم ہو ، وہیں ذکر غصبِ خلافتِ مرتضویؑ بھی ضروری ہے اور عوام کو یہ بھی بتلایا جانا ضروری ہے کہ کس طرح مولا علیؑ اور ان کی زوجہ صدیقہ طاہرہ (س) نے مدینہ والوں کو ان کے گھر جا جا کر اعلان غدیر یاد دلایا تھا۔ مگر سب نے آپؑ کی نصرت کرنے اور ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ ان اسباب کا بیان کیا جانا بھی ضروری ہے،جن کی وجہ سے مدینہ والوں نے اہلبیت رسولؐ کا ساتھ نہیں دیا۔ مدینہ والوں کی خاموشی کے باوجود جناب فاطمہ (س) نے تنہا غاصبانِ خلافت و فدک کا مقابلہ کیا۔
حضرت زهرا سلام الله علیها کا خطبہ فدک، مرسل اعظم صلی الله علیہ و الہ و سلم کی وفات کے بعد اپ پر ہونے والے مظالم کی ناقابل انکار اور قیمتی دستاویز اور سند ہے ، حضرت (س) نے اس خطبہ میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و اله وسلم کے انتقال کے بعد عرب معاشرہ کے حالات اور حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، ہم نے اس سے