ایام فاطمیہؑ کی مجالس میں جہاں ذکر مصائب معصومہؑ عالم ہو ، وہیں ذکر غصبِ خلافتِ مرتضویؑ بھی ضروری ہے اور عوام کو یہ بھی بتلایا جانا ضروری ہے کہ کس طرح مولا علیؑ اور ان کی زوجہ صدیقہ طاہرہ (س) نے مدینہ والوں کو ان کے گھر جا جا کر اعلان غدیر یاد دلایا تھا۔ مگر سب نے آپؑ کی نصرت کرنے اور ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ ان اسباب کا بیان کیا جانا بھی ضروری ہے،جن کی وجہ سے مدینہ والوں نے اہلبیت رسولؐ کا ساتھ نہیں دیا۔ مدینہ والوں کی خاموشی کے باوجود جناب فاطمہ (س) نے تنہا غاصبانِ خلافت و فدک کا مقابلہ کیا۔
خاتون محشر، صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہراء (س) کی ذات مطہر کی حقیقی معرفت سے عقل عاجز ہے، قلم ان کے صفات طیبہ کے کمال کو تحریر کرنے سے قاصر ہے۔ دانشوروں، خطیبوں اور ادیبوں کے بس میں نہیں کہ ان کے خصائص اور خصائل بیان کریں۔ آپؑ کی بزرگی اور مرتبہ کو بیان کرنے کے لۓ صرف وہی بات سامنے لائ جاسکتی ہے ، جسے زبانِ عصمت نے پیش کیا ہے۔ امام حسن عسکری (ع) فرماتے ہیں۔ “ہم ، الله تعالیٰ کی تمام مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں اور فاطمہؑ ہم (ائمہؑ) پر حجت ہیں”۔ (تفسیر اطیب البیان ج ١٣)۔ جناب سیدہ (س) کی شہادت صرف اہل کساء میں مرکزی شخصیت کی رحلت نہ تھی، یہ اہل بیتؑ کے گھرانے کے لیے ایک عظیم مصیبت بھی تھی۔ لہذا اہل بیتؑ کے چاہنے والے جس طرح ماہ محرم کو ماہ عزا کی طرح مناتے ہیں، ان کو چاہیے کہ اسی طرح ایام فاطمی (ع) میں بھی غم و حزن کے مراسم کو رائج کریں۔ جس طرح محرم میں کربلا کے شہید اعظمؑ،کی یاد منائ جاتی ہے کہ جس نے باطل سے انکارِ بیعت کیا اور اس راہ میں اپنا سب کچھ دین پر قربان کردیا، اسی طرح مادر حسینؑ، جناب فاطمہ (س) نے بھی غاصبان خلافت اور ہر ظلم کی بنیاد رکھنے والوں کی خلافت سے انکار کردیا تھا۔ آپؑ نے بھی کسی چیز کی پرواه نہ کر کےدین کی بنیاد کو مضبوط کیا اور راہ شہادت کی عظیم منزل پر فائز ہوئیں۔ اگر جناب سیدہ (س) اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے شدّت سے اظہار براءت نہ کرتیں تو ہمیشہ کے لیے حق و باطل کی پہچان ختم ہو جاتی۔ حقائق کو چھپادیا جاتا اور امت کو روز قیامت تک کے لیے صراط مستقیم سے دور کردیا جاتا۔ اپنے آخری وقت تک جناب فاطمہؐ نے حق کا دفاع کیا اور لوگوں کو حقیقت سے مسلسل آشنا کراتی رہیں۔ وقت آخر آپؑ نے فرمایا تھا: “واۓ ہو اس امت پر ،جس نے حسنینؑ کے نانا کو اور پھر ان کی والدہ کو ناراض کیا اور ان دونوں کو قتل کردیا۔ (بحارالانوار ج ۴٣ ص ١٧٨)
اس جملے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ امت نے فقط جناب سیدہ ہی کو نہیں، رسول اللہ (ص) کو بھی ناراض کیا اور ان کو بھی شہید کیا ہے۔ حکومت نے اس حقیقت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر تاریخ نویس اس بات کو چھپا نہ سکے کہ دخترِ رسولؐ وقت مرگ شیخین سے ناراض تھیں۔ بنت رسول (ع) شیخین سے اس قدر ناراض تھیں کہ ان سے بات چیت کرنا تو ایک طرف آپ ان کے سلام کو جواب کے لائق بھی نہیں سمجھتی تھیں۔ (صحیح بخاری ج ۵ ص ٢١)۔ صرف زندگی ہی میں نہیں بلکہ اپنی وفات کے بعد بھی آپؑ نے ان لوگوں سے براءت کا عمل برقرار رکھا جناب فاطمہ (س) نے مولا علیؑ سے وصیت فرمائ تھی- “جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میرے حق کو پامال کیا میرے جنازے میں شریک نہ ہوں، میری نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے پیروکار بھی میرے جنازہ میں شامل نہ ہوں۔”(بیت الاحزان -شیخ عباس قمی)
اس مختصر مقدمہ کے بعد اب ہم اس موضوع کی طرف بڑھتے ہیں کہ اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کو شہادت جناب زھراء (س) کو بھی محرم کی طرح کیوں منانا چاہیے۔ پیغمبرِ اعظم (ص) نے اپنی دختر جناب فاطمہؑ سے ایک موقع پر فرمایا تھا :
قَالَ يَا اِبْنَتِي….فَالْوَيْلُ كُلُّهُ لِمَنْ ظَلَمَكِ وَ اَلْفَوْزُ اَلْعَظِيمُ لِمَنْ نَصَرَكِ (بحار الأنوار ج ۴۳، ص ۲۲۵)
“اے میری نورِ نظر !…ویل (جہنم) ہے اس کے لیے جس نے تم پر ظلم کیا اور کامیابی ہے اس کے لیے جس نے تمھاری نصرت کی۔”
حدیث نبویؐ میں جناب فاطمہ (س) کی نصرت کرنے کو کامیابی قرار دیا گیا ہے۔ جناب سیدہ (س) کی نصرت کیا ہے؟ اور ان کی نصرت کس طرح کی جائے؟ بلا شبہ آپ (س) کی نصرت یہی ہےکہ آپ کے اس مقصد کو کامیاب بنایا جائے جس کے لیے آپؑ نے اپنی جان دے دی۔ دخترِ رسولؐ نے امام وقت حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے حق کے دفاع میں اور ان کی ولایت کی تبلیغ میں بے انتہا زحمتیں برداشت کیں۔ جب آپؑ کے گھر پر حملہ ہوا تو آپؑ نے آگے بڑھ کر ظالموں کا سامنا کیا۔ جناب فاطمہ (س) نے حقیقی خلیفہء رسولؐ ( جس کو اللہ اور اس کے نبیؐ نے منتخب کیا تھا۔) کی خلافت کو غصب کرنے والوں کے خلاف اقدام کیا اور ان کو بے نقاب کردیا۔ اگر ان حملہ کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کے دل میں رسول اسلام (ص) کے لۓ ذرا بھی محبت ہوتی تو وہ دخترِ رسولؐ اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ مروّت کرتے مگر افسوس یہ سب کچھ نہ ہوا۔
ایام فاطمیہؑ کی مجالس میں جہاں ذکر مصائب معصومہؑ عالم ہو ، وہیں ذکر غصبِ خلافتِ مرتضویؑ بھی ضروری ہے اور عوام کو یہ بھی بتلایا جانا ضروری ہے کہ کس طرح مولا علیؑ اور ان کی زوجہ صدیقہ طاہرہ (س) نے مدینہ والوں کو ان کے گھر جا جا کر اعلان غدیر یاد دلایا تھا۔ مگر سب نے آپؑ کی نصرت کرنے اور ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ ان اسباب کا بیان کیا جانا بھی ضروری ہے،جن کی وجہ سے مدینہ والوں نے اہلبیت رسولؐ کا ساتھ نہیں دیا۔ مدینہ والوں کی خاموشی کے باوجود جناب فاطمہ (س) نے تنہا غاصبانِ خلافت و فدک کا مقابلہ کیا۔
خطباء کو چاہیے کہ سامعین کو خطبہء فدک کے اہم نکات سے آگاہ کریں، جس سے عوام کو جناب سیدہ (س) کی فصاحت کے ساتھ ان کی شجاعت اور باطل شکنی کے جزبے کا بھی اندازہ ہو سکے کہ کس طرح معصومہء عالم (س) نے قرآنی دلائل کے ذریعہ خلیفہ کے جھوٹ کو بے نقاب کردیا، عوام کو یہ بھی بتلایا جائے کہ خود امیر المومنین (ع) نے اپنے دور خلافت میں باغ فدک کو اولاد فاطمہ (س) کے حوالے کیوں نہیں کیا؟
اہم موضوعات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی بتلایا جائے کہ کیوں جناب زہراء (س) شیخین سے اس قدر ناراض تھیں جبکہ آپؑ کو اس بات کا علم تھا کہ رسول الله (ص) کا ارشاد ہے، “اے فاطمہؑ ! اگر تمام نبی اور تمام مقرب فرشتے تم سے دشمنی کرنے والے اور تمہارا حق غصب کرنے والے کی شفاعت کریں تو بھی الله انھیں آتش جہنم سے باہر نہیں نکالے گا۔” (کنز الفوائد ٦۴) جناب فاطمہ (س) کی ناراضگی کی اہمیت اللہ کے نزدیک اس قدر ہے کہ سورہ بقرہ : ٢٨۴ کی تفسیر میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، “خدا کو یہ حق ہے کہ وہ ایسے شخص کو جنت میں داخل نہ کرے جس کے دل میں رائی کے برابر ان دونوں کی محبت ہو۔” (فضائل الزہراء ص ۵٦٨)
لہذا ایام فاطمیؑ میں مقصد قیام زہراء (س) کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے شدید براءت کی تلقین بھی کرنی چاہیے تاکہ صحیح معنی میں جناب زھراء (س) کی تعلیم کردہ دفاع امامت کی راہ میں چلنے والے اور آخرت میں فاطمیوں کی فہرست میں شمار ہو سکیں۔
Add new comment