جناب سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بی بی کی اس فریاد [ اے بابا جان ! اے رسول خدا ! اے والد گرامی ! ابوبکر اور عمر نے تمھارے بعد ہمارے ساتھ کیا برا برتاو کیا ! جبکہ اج بھی اپ کی آنکھیں قبر میں کھلی ہوئی ہیں] [۲] پر عمر بن خطاب، خالد بن ولید اور مغیرہ بن شعبہ کے سوا، ابوبکر اور اس کے ہمراہ سبھی لوگ زار و قطار رو رہے تھے، پھر عمر بن خطاب نے کہا کہ " ہم عورتوں اور کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔
پھر جناب سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنے شوھر[علی علیہ السلام] اور قنفذ کے درمیان حائل ہوئیں " وہ کہ خدا اس پر لعنت کرے اس نے تازیانہ سے فاطمہ سلام اللہ پر وار کردیا " چونکہ عمر نے قنفذ کو حکم دے رکھا تھا کہ اگر فاطمہ [علیھا السلام] تمھارے اور علی [علیہ السلام] کے درمیان حائل ہوئیں تو انہیں کوڑے سے مارنا، پھر قنفذ ملعون نے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیھا] کو لکڑی کے در اور دیوار کے بیچ دھکا دے کر دروازہ کو پوری طاقت کے ساتھ دبا دیا کہ جس کی وجہ سے حضرت کے پہلو کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور شکم میں موجود بچہ ساقط ہوگیا، اس حادثہ کے بعد حضرت ہمیشہ بستر پر رہیں یہاں تک جام شھادت نوش کرلیا ۔ [۲]
تیسرے حملے اور اس کی کیفیت کے سلسلہ میں اہل سنت کی درجہ اول کی کتابوں اور منابع میں واضح اور روشن روایتیں اور دلیلیں موجود نہیں ہیں ، ان منابع میں فقط عمر ابن خطاب کی جانب سے گھر کو آگ لگائے جانے کی دھمکی اور حضرت (ع) سے ہونے والی دیگر باتوں کا تذکرہ ہے [۳] مگر اہل سنت کے درجہ دوم کے منابع میں عمر ابن خطاب کی جانب سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر ہاتھ اٹھائے جانے اور ان پر کوڑے برسانے کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔ [۴]
عام لوگوں کے تصور کے بر خلاف عمر اور ان کے ساتھیوں نے فقط ایک بار ہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ نہیں کیا بلکہ اس طرح کے حملے کئی بار ہوئے ہیں ۔
امام علی علیہ السلام کے گھر پر متعدد حملے اس بات کے گواہ اور دلیل ہیں کہ حضرت امام علی علیہ السلام اور اپ کا گھرانہ ، ابوبکر کی بیعت پر ہرگز راضی نہ تھا مگر اپ (ع) کے دشمن اس بات پر کوشاں اور بضد تھے کہ کسی بھی صورت بیعت لے لیں، اسی بنیاد پر ان لوگوں نے پہلے نرم طریقہ اپنایا اور جب یہ دیکھا کہ ان کا یہ طریقہ اور سیاست کارگر نہیں ہے تو حضرت امام علی علیہ السلام کے گھر پر حملہ ور ہوگئے تاکہ حضرت (ع) پر دباو ڈال کر بیعت لے سکیں ۔
دیگر قسطیں یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6422
http://www.ur.btid.org/node/6430
http://www.ur.btid.org/node/6449
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
[۱] ۔ كتاب سليم بن قيس هلالی، پیشین، ص150 و 151 و 153، متن کتاب.
[۲] ۔ «فأرسل عمر يستغيث، فأقبل الناس حتى دخلوا الدار وثار علي عليه السلام إلى سيفه. فرجع قنفذ إلى أبي بكر وهو يتخوف أن يخرج علي عليه السلام إليه بسيفه، لما قد عرف من بأسه وشدته. فقال أبو بكر لقنفذ: (إرجع، فإن خرج وإلا فاقتحم عليه بيته، فإن امتنع فاضرم عليهم بيتهم النار). فانطلق قنفذ الملعون فاقتحم هو وأصحابه بغير إذن، وثار علي عليه السلام إلى سيفه فسبقوه إليه وكاثروه وهم كثيرون، فتناول بعضهم سيوفهم فكاثروه وضبطوه فألقوا في عنقه حبلا! وحالت بينهم وبينه فاطمة عليها السلام عند باب البيت، فضربها قنفذ الملعون بالسوط فماتت حين ماتت وإن في عضدها كمثل الدملج من ضربته، لعنه الله ولعن من بعث به. ثم انطلق بعلي عليه السلام يعتل عتلا حتى انتهي به إلى أبي بكر....
قال: قلت لسلمان: أدخلوا على فاطمة عليها السلام بغير إذن؟ قال: إي والله، وما عليها من خمار فنادت: "وا أبتاه، وارسول الله يا أبتاه فلبئس ما خلفك أبو بكر وعمر عيناك لم تتفقأ في قبرك" - تنادی بأعلى صوتها -. فلقد رأيت أبا بكر ومن حوله يبكون وينتحبون ما فيهم إلا باك غير عمر وخالد بن الوليد والمغيرة بن شعبة وعمر يقول: إنا لسنا من النساء ورأيهن في شئ.....
وقد كان قنفذ لعنه الله ضرب فاطمة عليها السلام بالسوط حين حالت بينه وبين زوجها وأرسل إليه عمر: "إن حالت بينك وبينه فاطمة فاضربها"؛ فألجأها قنفذ لعنه الله إلى عضادة باب بيتها ودفعها فكسر ضلعها من جنبها فألقت جنينا من بطنها. فلم تزل صاحبة فراش حتى ماتت صلى الله عليها من ذلك شهيدة». كتاب سليم بن قيس هلالی، پیشین، ص150 و 151 و 153، متن کتاب.
[۳]. «الذين تخلفوا عن بيعة أبي بكر، عليّ، و العباس، و الزبير، و سعد بن عبادة، فأما علي و العباس و الزبير فقعدوا في بيت فاطمة حتى بعث إليهم أبو بكر عمر بن الخطاب ليخرجوا من بيت فاطمة، و قال له: إن أبوا فقاتلهم. فأقبل بقبس من نار على أن يضرم عليهم الدار، فلقيته فاطمة فقالت: يا ابن الخطاب، أ جئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم، أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأمة!». العقد الفريد، شهاب الدین ابو عمرو احمد بن محمد ابن عبد ربه اندلسی (246_328ق)، بیروت، دار الکتب العلمیة، ج5، ص13، متن کتاب؛/ و
«ثم إن أبا بكر بعث عمر بن الخطاب إِلى علي ومن معه ليخرجهم من بيت فاطمة رضي الله عنها، وقال: إِن أبوا عليك فقاتلهم. فأقبل عمر بشيء من نار على أن يضرم الدار، فلقيته فاطمة رضي الله عنها وقالت: إِلى أين يا ابن الخطاب؟ أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم، أو تدخلوا فيما دخل فيه الأمة». المختصر في أخبار البشر، أبوالفداء عماد الدين إسماعيل بن علی بن محمود بن محمد ابن عمر بن شاهنشاه بن أيوب(م732ق)، مصر، المطبعة الحسينية، چاپ اول، ج1، ص156، متن کتاب؛/ و
«أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ يُرِيدُ الْبَيْعَةَ، فَلَمْ يُبَايِعْ. فَجَاءَ عُمَرُ، ومعه فتيلة فتلقته فاطمة على الباب، فقالت فاطمة: [يا ابن الْخَطَّابِ، أَتُرَاكَ مُحَرِّقًا عَلَيَّ بَابِي؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَلِكَ أَقْوَى فِيمَا جَاءَ بِهِ أَبُوكِ».
جمل من أنساب الأشراف، أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (م 279ق)، تحقيق: سهيل زكار ورياض الزركلي، بیروت، دار الفكر، چاپ اول، 1417ق-1996م، ج1، باب أمر السقيفة، ص586، ح1184، متن کتاب.[۴]. به عنوان نمونه: «إِن عمر ضرب بطن فَاطِمَة يَوْم لبيعة حَتَّى أَلْقَت المحسن من بَطنهَا ». الوافی بالوفيات، صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدی(م764ق)، المحقق: أحمد الأرناؤوط و تركی مصطفى، بیروت، دار إحياء التراث، 1420ق-2000م، ج6، ص15، به نقل از نظام معتزلی، متن کتاب.
Add new comment