ہر مومن اور مسلمان کا اس بات پر ایمان اور یقین ہے کہ اسلام واقعا مکمل ضابطہ حیات ہے البتہ جب بھی یہ کہا جائے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں زندگی کے متعلق تمام امور کا تذکرہ موجود ہے اور یہ بھی موجود ہے ان امور کو کس طرح سرانجام دینا چاہئے ، جیسا کہ قران کریم نے ارشاد فرمایا : وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ، اے پیغمبر ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے ۔ (۱)
اسلام دو چیزوں کا نام ہے: ایک قرآن ، دوسرے روایات ؛ یعنی انسانی زندگی کےساتھ تعلق رکھنے والی تمام چیزیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی چیز کا تعلق انسانی زندگی سے ہو مگر قرآن وحدیث میں اس کا تذکرہ نہ ہو ، کیوں خداوند متعال نے قران کریم میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا : لَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ؛ یعنی دنیا کا ہر خشک و تر قران کریم میں موجود ہے (۲)، یہ ایک الگ بات ہے کہ میرا ذہن اس چیز تک نہیں پہنچ سکا مگر عین ممکن ہے کہ مستقبل میں انے والی نسلیں اسے سمجھ لیں ، کیوں ابتدائے اسلام میں بھی بہت ساری باتوں کو لوگ نہیں سمجھتے اور جانتے تھے مگر عصر حاضر کے لوگ قران کی گہرائی کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔
اہل سنت عالم دین غماری عبدالله بن صدیق اپنی کتاب بديع التفاسير جلد ۶ میں تحریر کرتے ہیں کہ اگر کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں قرآن اور حدیث سے حل نہیں مل رہا تو اس میں ہمارے علم کی کمی ہے اور ہماری کوتاہ فہمی ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس مسئلے کا حل قرآن اور مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حدیث میں نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ النحل ، ایت ۸۹ ۔
۲: قران کریم ، سورہ انعام ، ایت ۵۹ ۔
Add new comment