گذشتہ سے پیوستہ
۵: اس پیغام اور ابلاغ کے مخالفین کو قرآن نے "کافروں کی جماعت" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے خدا ان کی راہنمائی نہيں کرتا۔ "اِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي ۔۔۔۔ الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ"۔
۶: بعض احادیث کے مطابق، آیت میں "مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ" (جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے) سے مراد "آیت ولایت" ہے جس کا اعلان آنحضرت "لوگوں" کی فتنہ انگیزی کے اندیشے سے مؤخر کرتے رہے تھے۔
ب: آیت ولایت
"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں"۔ (۱)
آیت کے نکات:
۱: ولایت ایک قسم کی قربت و اتصال ہے جو ایک قسم کے ربط و تعلق - یعنی رابطے، محبت، نصرت اور تصرف - کی نشاندہی کرتی ہے؛ چونکہ ولایت، محبت اور نصرت صرف بعض مؤمنوں سے مختص نہیں ہے، اور تمام مؤمنین ایک دوسرے کے محب اور ناصر و مددگار ہیں، لہٰذا آیت ولایت میں ولایت سے مراد "ولایتِ تصرف" (حکمرانی اور سرپرستی) ہے۔ یعنی "وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" سے مراد وہ لوگ ہیں جو "ولایتِ تصرف" کا استحقاق رکھتے ہیں۔
۲: چونکہ آیت ولایت میں "الَّذِينَ آمَنُوا" (وہ جو ایمان لائے ہیں)، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر معطوف ہے، لہٰذا یہ ولایت کی نوعیت وہی ہے جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حاصل ہے اور خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولایت کی تمام خصوصیات کی حامل ہے۔
۳: آیت میں "إِنَّمَا" حصر پر دلالت کرتا ہے چنانچہ ولایت سے ایک خاص ولایت مراد ہے، جو خدا، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و الہ) اور بعض مؤمنین تک محدود ہے؛ یعنی یہ وہ ولایت عامہ نہیں ہے جس میں تمام مؤمنین شامل ہیں۔ اور وہ وہی ولایت ہے جو صرف اور صرف "امامت و قیادت و زعامت" اور "حکمرانی اور تصرف" کے ساتھ ہی سازگار اور ہم آہنگ ہے۔
ج: آیه اکمال
"الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا ۔ (۲)
آج کافر لوگ تمہارے دین [کی ناکامی اور شکست سے] سے نا اُمید ہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین، پسند کر لیا"۔
آیت کے نکات:
کسی شئی کے کمال کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس میں ہے، اور جو کچھ اس کا مقصد ہے، وہ حاصل ہو جائے۔ یعنی شیۓ اس انداز سے کامل ہوئی کہ اس کا مقصود و مطلوب حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اکمال دین سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کے معارف و احکام اور اجزاء و معطیات میں ایک نئے جزء کا اضافہ ہؤا، ایسا جزء جو دین کو انتہائی مقصد تک پہنچاتا ہے اور اگر وہ جزء نہ ہو تو دین کامل نہیں ہے اور وہ اپنے انتہآئی مقصد تک نہیں پہنچتا۔
۱: اتمامِ شئی، یعنی شیۓ کا اس حد تک پہنچنا، کہ جہاں اس کو باہر سے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔
۲: قران کریم ، سورہ مائدہ، آیت ۳۔
Add new comment