جب حضرت امام حسین (علیہ السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی قبر مبارک سے صبح کے وقت گھر واپس تشریف لائے تو آپ علیہ السلام کے بھائی جناب محمد حنفیہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا: "میرے بھائی! آپ میرے لیے محبوب ترین اور عزیزترین شخص ہیں، اللہ کی قسم! میں کسی کے حق میں خیرخواہی کرنے سے دریغ نہیں کرتا، آپ سب سے زیادہ میری خیرخواہی کے لائق ہیں، اس لیے کہ میں اور آپؑ ایک جڑ سے ہیں اور آپؑ میرے گھرانہ کی جان، روح، آنکھ اور بڑے ہیں اور آپؑ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے، کیونکہ اللہ نے آپؑ کو مجھ پر شرف بخشا ہے، اور آپؑ کو اہل جنت کے بزرگوں میں سے قرار دیا ہے"۔
نیز جناب محمد حنفیہؑ نے عرض کیا:
"مکہ تشریف لے جایئے، اگر وہاں آپ کے لئے امن ہو تو وہیں پر رہیں، اور اگر ایسا نہ ہو تو یمن چلے جایئے گا کہ وہاں آپ کے جدّ اور والد کے اصحاب ہیں ، وہ سب سے زیادہ مہربان، محبت کرنے والے اور مہمان نواز لوگ ہیں، اگر وہاں آپ کے لئے امن ہو تو رہیئے ورنہ ریگزاروں اور پہاڑ کے شکاف میں جایئے گا اور ایک شہر سے دوسرے شہر کوچ کیجئے گا تاکہ آپ دیکھیں کہ ان لوگوں کا کام کہاں پہنچتا ہے اور اللہ ہمارے اور اس فاسق گروہ کے درمیان فیصلہ کرے گا"۔
حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "يا أَخي وَاللَّهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ في الدُّنْيا مَلْجَأً وَ لا مَأْوىً، لَما بايَعْتُ يَزيدَ بَنْ مُعاوِيَةَ"، "اے میرے بھائی، اللہ کی قسم اگر دنیا میں کوئی پناہگاہ اور امن کی جگہ نہ بھی ہو تو یزید ابن معاویہ سے بیعت نہیں کروں گا"۔
جناب محمد ابن حنفیہ خاموش ہوگئے اور رونے لگے، امام (علیہ السلام) بھی کچھ دیر روئے، پھر فرمایا: "يا أَخي جَزاكَ اللَّهُ خَيْراً، لَقَدْ نَصَحْتَ وَ أَشَرْتَ بِالصَّوابِ وَ أَنَا عازِمٌ عَلَى الْخُروُجِ الى مَكَّةَ، وَ قَدْ تَهَيَّأْتُ لِذلِكَ أَنَا وَ إِخْوَتي وَ بَنُو أَخي وَ شيعَتي، وَ أَمرُهُمْ أَمْري وَ رَأْيُهُمْ رَأْيي، وَ أَمَّا أَنْتَ يا أَخي فَلا عَلَيْكَ أَنْ تُقيمَ بِالْمَدينَةِ، فَتَكُونَ لي عَيْناً عَلَيْهِمْ وَ لا تُخْفِ عَنّي شَيْئاً مِنْ أُموُرِهِمْ"، "اے میرے بھائی، اللہ آپ کو جزائے خیر دے، بیشک آپ نے خیرخواہی کی اور صحیح راستہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میں اب مکہ کی طرف جانے والا ہوں اور میں نے اس سفر کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور شیعوں کو تیار کیا ہے، اور ان کا کام (ارادہ) میرا کام ہے اور ان کی رائے میری رائے ہے، اور آپ اے میرے بھائی! آپ کے لئے مدینہ میں رہنے کا کوئی حرج نہیں تاکہ آپ ان پر میری آنکھ (خبررساں) رہیں اور ان کے تمام امور سے مجھے مطلع کریں"۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیرازی ، ناصر مکارم ، کتاب عاشورا ريشهها، انگيزهها، رويدادها، پيامدها، ص۳۲۷، ۳۲۸ ۔
Add new comment