تبریک و تہنیت
تبریک و تہنیت ہر عید کے نمایاں ترین آداب میں سے ہے۔ اسلم میں بھی تبریک اور تہنیت کی سنت عید غدیر میں خصوصی اہمیت پاتی ہے۔ رسول اللہ(ص) اس دن مبارکباد کہنے پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: "هنئوني هنئوني؛ مجھے تہنیت کہو مجھے مبارکباد دو"۔ (۱)
امام صادق (علیہ السلام) نے اس روز تبریک و تہنیت کی یوں تعلیم دی ہے: "الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِهَذَا الْيَوْمِ وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُوفِينَ بِعَهْدِهِ إِلَيْنَا وَمِيثَاقِهِ الَّذِي وَاثَقَنَا بِهِ مِنْ وِلاَيَةِ وُلاَةِ أَمْرِهِ وَالْقُوَّامِ بِقِسْطِهِ وَلَمْ يَجْعَلْنَا مِنَ الْجَاحِدِينَ وَالْمُكَذِّبِينَ بِيَوْمِ الدِّين؛ (۲)
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اس دن کے ذریعے ہمیں عزت و کرامت بخشی اور ہمیں مؤمنین اور ان افراد میں قرار دیا جنہوں نے اس کے والیان امر اور عدل و قسط قائم کرنے والوں [یعنی ائمہ معصومین (علیہم السلام)] کی نسبت عہد و میثاق پر عمل کیا ہے۔ اور ہمیں قیامت کے منکرین اور اس کے جھٹلانے والوں میں قرار نہیں دیا"۔
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "وَهُوَ يَوْمُ التَّهْنِيَةِ يُهَنِّی بَعْضُكُمْ بَعْضاً؛ یہ تہنیت کہنے اور مبارک باد دینے کا دن ہے؛ چنانچہ تم ایک دوسرے کو مبارک باد دو"۔ (۳)
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اس دن جب ایک دوسرے سے ملتے ہو تو کہہ دو: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَهِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (عَلَیْهِ السَّلاَمُ) ؛ ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے تمسک کرنے (اور ولایت علی (علیہ السلام) کا دامن تھامنے) والوں کے زمرے میں قرار دیا ہے"۔ (۴)
تبسم (مسکراہٹ)
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "وَهُوَ يَوْمُ التَّبَسُّمِ فِي وُجُوهِ النَّاسِ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَانِ فَمَنْ تَبَسَّمَ فِی وَجْهِ أَخِيهِ يَوْمَ الْغَدِيرِ نَظَرَ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالرَّحْمَةِ وَ قَضَى لَهُ أَلْفَ حَاجَةٍ وَ بَنَى لَهُ قَصْراً فِی الْجَنَّةِ مِنْ دُرَّةٍ بَيْضَاءَ وَ نَضَّرَ وَجْهَهُ؛
غدیر کا دن مؤمنین کی مسکراہٹوں کا دن ہے پس جو اس دن اپنے مؤمن بھائی کا چہرہ دیکھ کر مسکرائے گا، خداوند متعال قیامت کے دن، اس پر نظر رحمت ڈالتا ہے، اس کی ایک ہزار حاجتیں بر لاتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سفید موتیوں کا محل تعمیر کرتا ہے اور اس کے چہرے کو خوبصورت اور تر و تازہ کر دیتا ہے"۔ (۵)
زندگی میں بہتری، صورت حال بدل دینا اور جشن منانا
عید غدیر کو زندگی کا چہرہ بدل جاتا ہے چنانچہ سب زندگی کا روزمرہ معمول بدلنے کی کوشش کریں اور زندگی کو فیاضآنہ اور نشاط انگیز روشوں سے آراستہ کریں تا کہ سب عید کا میٹھا ذائقہ چکھ لیں اور اس کی دل انگیز اور روح پرور خوشبو محسوس کریں۔ یقیناً زندگی کی بہتری میں معاشی بہتری سرفہرست ہے۔
امام رضا(ع) نے فرمایا: "هو اليوم الذى يزيد الله فى مال من عبدالله وسع على عياله ونفسه واخوانه۔۔۔"۔ غدیر کا دن وہ دن ہے جب خداوند متعال اس بندے کے مال میں اضافہ کرتا ہے جو اپنے آپ، اپنے اہل و عیال اور اپنے بھائیوں کے لئے دل کھول کر خرچ کرے"۔ (۶)
امام رضا (ع) نے عید غدیر کے دن اپنے اقرباء اور اطرافیوں کی حالت بدل دی اور ان کی زندگی کو تازہ صورت عطا کی۔ (۷)
حمد و ثناء
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ایک سنت یہ ہے کہ مؤمن غدیر کے دن سو مرتبہ کہے: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ كَمَالَ دِينِهِ وَ تَمَامَ نِعْمَتِهِ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ"۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے امیرالمؤمنین علي بن ابی طالب (علیہما السلام) کی ولایت سے دین کو کامل اور نعمت کو تمام فرمایا"۔ (۸)
دعا
معصومین(ع) نے اپنے پیروکاروں کو غدیر کے روز دعا کی تلقین فرمائی ہے۔
اس دن کی مخصوص دعائیں درج ذیل ہیں:
1۔ وہ دعا جس کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے:
"اللّهُمَّ انَّكَ دَعَوْتَنا الى سَبِيلِ طاعَتِكَ وَ طاعَةِ نَبِيِّكَ وَ وَصِيهِ وَ عِتْرَتِهِ، (۹)
2ـ دعا، جو اس جملے سے شروع ہوتی ہے ہے: دعايى كه در آغاز اين عبارت ديده مىشود: "اَللّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ بِحَقِ مُحَمَّدٍ نَبِيِّكَ، وَعَلِىٍ وَلِيِّكَ، وَالشَّاْنِ وَالْقَدْرِ الَّذى خَصَصْتَهُما بِهِ دُونَ خَلْقِكَ ۔۔۔" (۱۰)
3۔ وہ دعا جس کا آغاز "اللهم بنورك اهتديت وبفضلك استغنيت ۔۔۔" (۱۱) سے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: بحارالانوار، مجلسى، ج۹۵، ص۳۲۲۔
۲: الغدير، علامہ امینی، ص۲۷۴۔
۳: بحارالانوار، ج۹۵، ص۳۰۳۔
۴: وہی ماخذ، ص ۲۶۲۔
۵: اقبال الاعمال، سید بن طاؤس، ج۲، ص۲۶۱۔
۶: إقبال الأعمال؛ سيد بن طاؤس، ج۲، ص۲۶۱؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص۲۶۰۔
۷: اقبال الاعمال، ص۲۶۱۔
۸: وہی ماخذ؛ مفاتیح الجنان، ۱۸ ذی الحجہ کے اعمال۔
۹: الغدير،علامہ امینی، ج۱، ص۲۸۷۔
۱۰: بحارالانوار، ج۹۵، ص۳۲۱۔
۱۱: اقبال الاعمال، سید ابن طاؤس، ج۲، ص۲۳۸ ؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص۲۵۵۔
Add new comment