غدیر معارف کا سمندر ہے جس مں فقہ، تعلیم و تربیت، کلام، اخلاق و تفسیر سب اکٹھا ہیں ، ہم اس مقالے میں چند نکات کی طرف اشارہ کریں گے ۔
مرحوم حاج میرزا جواد ملکی تبریزی کہتے ہیں: جو فضیلت روز غدیر کے لئے وارد ہوئی ہے وہ ماہ مبارک رمضان کی فضیلت سے کہیں زيادہ ہے"۔ (۱)
روز غدیر کے لئے اتنے سارے اعمال جن کی فضیلت غیر معمولی ہے ، روز غدیر کے لئے کیوں قرار دیئے گئے ہیں؟ امام صادق (علیہ السلام) اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "اعظاماً ليومك"، یعنی اس لئے کہ تم اس دن کی تعظیم کرو اور اس کو عظمت کے ساتھ مناؤ۔ (۲) امام صادق (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے دو حقیقیں سامنے آتی ہیں: ایک یہ کہ یوم غدیر کی تعظیم و تکریم ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ کہ روز غدیر کی تکریم و تعظیم خاص اعمال انجام دے کر انجام پاتی ہے۔
روز غدیر کے اعمال میں مؤمنین کو افطار دینا (افطار کرانا) بہت اعلی درجے کا عمل ہے ، روایات کے مطابق اس عمل میں ثواب عظیم مضمر ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"۔۔۔ ومن فطر مؤمنا في ليلته فكأنما فطر فئاما وفئاما يعدها بيده عشرة "۔ فنهض ناهض فقال: يا أمير المؤمنين وما الفئام ؟ قال: " مائة ألف نبي وصديق وشهيد۔۔۔"۔ (۳)
جو کوئی کسی روزہ دار مؤمن کو روز غدیر کے روزے کا افطار کرائے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دس فئاموں کو ـ افطار کرایا ہو۔ پس ایک شخص اٹھا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! فئام کیا ہے؟ فرمایا: ایک لاکھ انبیاء اور صدیقین و شہداء"۔
اسی طرح کی ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے۔ (۴) بعض روایات کے مطابق امام رضا علیہ السلام نے غدیر کے دن لوگوں کے ایک گروہ کو افطار کے لئے روک لیا۔ (۵)
مواخات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عملی سنت ہے۔ آپ نے ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کرکے ان کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا انعقاد کیا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو اپنا بھائی قرار دیا (۶)
روز غدیر روز ولایت اور روز ولایت روز مواخات ہے؛ ولایت اور مواخات کے درمیان گہرا رشتہ پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان وصل کی کڑی ایمان ہے؛ کیونکہ ایک طرف سے ایمان ولایت کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے اور دوسری طرف سے اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں: "انما المؤمنون اخوة ؛ مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: المراقبات، ميرزا جواد آقا تبريزى، ص ۲۱۷ ۔
۲: بحارالانوار، علامہ محمد باقر مجلسی، ج۹۵، ص۳۰۲ ۔
۳: المراقبات، ميرزا جواد آقا تبريزى، ص۲۵۶ ؛ مصباح المتہجد، شیخ طوسی، ص۷۵۲، مناقب آل أبي طالب، ابن شہر آشوب، ج۳، ص۴۳؛ مصباح الزائر، سيد ابن طاؤس، الفصل ۷ ؛ بحارالانوار، ج۹۴، ص۱۱۸ ۔ ۔
۴: التہذيب، شيخ طوسى، ج۳، ص۱۴۳۔
۵: الغدير، علامہ امينى، ج۱، ص۲۸۷ ۔
۶: "عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَيْنَ أَصْحَابِهِ، ... فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قَدْ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ فَمَنْ أَخِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى يَا عَلِيُّ أَنْ أَكُونَ أَخَاكَ؟» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَلْدًا شُجَاعًا، فَقَالَ عَلِيٌّ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ»
عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مدینہ پہنچنے کے بعد اپنے اصحاب کے درمیان مواخات کا اہتمام کیا تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، تو میرا بھائی کون ہے؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہو کہ میں آپ کا بھائی بنوں؟ ـ عبداللہ بن عمر نے کہا: اور علی (علیہ السلام) بہت طاقتور، باہمت اور صابر و جری تھے، اور عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: «تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی»"۔ المستدرک علی الصحیحین، محمد عبداللہ حاکم نیسابوری (مطبوعہ، بیروت ۱۹۹۰ع)، ج ۳، ص۱۶؛ یہ حدیث سنن ترمذی سمیت متعدد سنی کتب حدیث میں اور تقریبا تمام شیعہ کتب میں بھی نقل ہوئی ہے)۔
۷۔ قران کریم ، سورہ حجرات، آيت ۱۰۔
Add new comment