مباہلہ، اسلام کی صداقت کی لازوال یادگار (۳)

Sun, 06/30/2024 - 12:51

گذشتہ سے پیوستہ

اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر مدینہ کے مشرق میں واقع صحرا میں ملتے ہیں ، یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی ، لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ، علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہوگئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا انتظار کرنے لگے ، عیسائیوں بھی اپنے بیٹوں کو لے کر پہنچ گئے ، دوسری جانب  رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مباہلے کو روانہ ہوئے انہوں  نے امام حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا امام حسین علیہ السلام کو گود میں اٹھایا آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سید النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی تھیں اور ان سب کے پیچھے علی ابن ابیطالب علیہ السلام تھے۔ تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر،تفسیر مولانا صلاح الدین یوسف شاہ فہد پرنٹنگ پریس مدینہ منورہ سعودی عرب ، زمخشری،فخرالدین رازی، بیضاوی اور دیگر مفسرین  نے لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بیٹوں  کی جگہ حسن اور حسین علیہما السلام کو ، عورتوں کی جگہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو اور نفسوں کی جگہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو لے کر گئے۔

جب نصارٰی نے ان بزرگ ہستیوں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ ان کے چچا زاد بھائی ہیں ، وہ دو بچے ان کے نواسے ہیں اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں ۔  

آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔ سوال کیا گیا  کہاں جارہے ہو؟ تو ابو حارثہ نے جواب دیا: اگر محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرأت نہ کرتے اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔  

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ  شرحبیل عیسائیوں کے ایک عظیم اور بڑے عالم نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بیشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا ، لہذا مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا ، اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابا القاسم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں ،  چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت ۴۰ درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں ۳۰ زرہیں، ۳۰ نیزے، ۳۰ گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہوں گے ، اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے صلح نامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا: "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بیشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے ۔ (۱)

جاری ہے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۲، ص ۳۱۰ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 55