اہل حرم کو کربلا لے جانے کے اسباب

Mon, 08/12/2024 - 10:31

تاریخ کربلا کا اہم ترین موضوع جس پر بہت سارے محققین اور دانشورں نے قلم چلائے ہیں وہ سفر کربلا میں اہل حرم کی امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام یزیدوں سے جنگ اور اپنی شھادت کا علم رکھنے کے باوجود اہل حرم کو اپنے ساتھ مدینہ سے کیوں لیکر نکلے ؟ کیوں کہ یہ چیز جنگی اصول اور قیام کے برخلاف ہے ۔ !

روایتیں اور تاریخ اس بات پر گواہ ہیں کہ مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس نے امام حسین علیہ السلام کو خطاب کرکے کہا: « میرے پیارے چچا کے بیٹے کوفیوں کی دعوت پر نہ جایئے کیوں کہ وہ فریب کار ہیں اور اگر جانے پر مجبور ہوں تو عورتوں اور بچوں یعنی اہل حرم کو نہ لیکر جایئے کہ امن نہیں ہے » ۔ (۱)

مسلم مورخین اور دانشوروں نے اپنی تحریروں میں امام حسین علیہ السلام کے اس عمل کے مختلف اسباب و علل بیان کئے ہیں جن کی جانب ہم اپنی اس تحریر میں اشارہ کریں گے ۔

۱: مصلحت اور ارادہ الہی پر رضامندی

تمام افراد حتی ابن عباس کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اہل حرم کی موجودگی اس لئے مصلحت کے خلاف ہے کہ انہوں نے قیام اور معرکہ کربلا کو مادی نگاہ سے دیکھا ہے مگر امام حسین علیہ السلام نے انہیں جواب اس قیام کے معنوی گوشے سے باخبر کیا اور اہل حرم کی موجودگی کی دلیلیں بتائیں ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں خطاب کرکے کہا : میں نےخواب میں اپنے جد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو دیکھا کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: «انَّ اللهَ شاءَ انْ یَراکَ قَتیلاً ؛ خدا تمہیں شھید دیکھنا چاہتا ہے» ، پھر لوگوں نے حضرت علیہ السلام سے سوال کیا کہ اگر ایسا ہے تو اپنے گھرانے کو لیکر کیوں جارہے ہیں تو فرمایا : «انَّ اللهَ شاءَ انْ یَراهُنَّ سَبایا ؛ خدا انہیں اسیر دیکھنا چاہتے ہیں» ۔ (۲)

۲: مذہبی جزبہ  

امام حسین علیہ السلام نے مختلف مقامات پر اپنی تقریروں اور بیانات میں یہ فرمایا کہ میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکلا ہوں یعنی اپ کے قیام کی ماہیت مقدس اور دینی ہے لہذا اہل بیت سلام اللہ علیہا کو ساتھ لانا بہت ہی زیادہ مفید اور موثر ہے ، اہل حرم سلام اللہ علیہا کا عرفان اور اعتقاد اس اعلی درجہ پر تھا کہ اسے دنیا دیکھ حیرت زدہ اور انگشت بدنداں رہ گئی ، اس کی بہترین مثال اور نمونہ دربار یزید میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے وہ فقرہ ہے جس میں اپ نے فرمایا : «ما رَأَیْتُ إِلَّا جَمیلا ؛ ہم نے حسن و جمال کے سوا کچھ بھی نہ دیکھا» ۔ (۳)  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: دینورى‏، ابو حنیفه احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص ۲۴۴ ؛ طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک ، ج ‏۵، ص ۳۸۳ – ۳۸۴ ۔

۲: سید ابن طاووس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص ۶۵ ۔

۳: سید ابن طاووس، اللہوف على قتلى الطفوف، ص ۱۶۰ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 16