اعزہ و اقربا اور ایمانی بھائیوں سے ملاقات
عید اور ایام سرور کے آداب میں سے ایک، ایک دوسرے سے ملنا اور ملاقات کرنا ہے ، یہ سنت لوگوں کو زیادہ شاداب اور عید کی یاد کی جڑوں کو ان کے ذہنوں میں مضبوط کر دیتی ہے ، اسلام نے اسی رسم کو عید غدیر کے لئے مد نظر رکھا ہے اور اس پر زور دیا ہے۔
امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "مَنْ زارِ فيهِ مُؤْمِنا أَدْخَلَ اللّه ُ قَبْرَهُ سَبْعيِنَ نُورا وَ وَسَّعَ فى قَبْرِهِ وَ يَزُورُ قَبْرَهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ وَيُبَشِّرُونَهُ بِالْجَنَّةِ؛ جو عید غدیر کے دن مؤمن سے ملنے جائے، اللہ تعالیٰ (بعد از موت) ان کی قبر میں ستر روشنیاں داخل کرتا ہے، اور اس کی قبر کو وسیع کر دیتا ہے، اور ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کی قبر کی زیارت پر آتے ہیں، جو اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں"۔ (۱)
بہت مناسب ہے کہ اللہ کی سب سے بڑی عید اور عید اللہ الاکبر ہے، کی اس سنت حسنہ پر عمل کیا جائے، تاکہ یوم غدیر کے احیاء کے ساتھ ساتھ مؤمنین کے درمیان الفت و مودت کے رشتے بھی مستحکم ہو جائیں۔
عید غدیر کا روزہ، مستحبِّ مؤکّد ہے اور اس کا اجر و ثواب منفرد ہے۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "إِذَا أَخْلَصَ الْمُخْلِصُ فِي صَوْمِهِ لَقَصُرَتْ إِلَيْهِ أَيَّامُ الدُّنيَا عَن كِفايَةٍ ومَن أَسْعَفَ أخاهُ مُبتَدِئاً وبَرَّهُ رَاغِباً فَلَهُ كَأَجْرِ مَنْ صَامَ هَذَا اَلْيَوْمَ وَقَامَ لَيْلَتَهُ؛ اگر ایک مخلص بندہ اس یوم [عید غدیر] کے کا روزہ اخلاص کے ساتھ رکھ لے، تو دنیا کے ایام اس کی برابری کرنے سے قاصر ہونگے؛ (یعنی اگر انسان اس دنیا کی ابتداء سے انتہا تک زندہ رہے اور ہر روز رکھے، تو ان تمام روزوں کا ثواب اس ایک روزے سے کم ہوگا)۔ اور جو اس دن اپنے [ایمانی] بھائی کی مدد میں [دوسروں پر] سبقت لے، تو گویا کہ اس نے اس دن کو روزہ رکھا ہے اور اس کی رات قیام و عبادت میں گذاری ہے"۔ (۲)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حقیقی جانشین حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: وَصَوْمُ هَذَا الْيَوْمِ مِمَّا نَدَبَ اللَّهُ إِلَيْهِ وَجَعَلَ الْجَزَاءَ الْعَظِيمَ كَفَالَةً عَنْهُ.الْعَظِيمَ كَفَالَةً عَنْهُ حَتَّى لَوْ تَعَبَّدَ لَهُ عَبْدٌ مِنَ الْعَبِيدِ فِي التَّشْبِيهِ مِنِ ابْتِدَاءِ الدُّنْيَا إِلَى تَقَضِّيهَا صَائِماً نَهَارُهَا قَائِماً لَيْلُهَا؛ اور اس دن کا روزہ ان امور میں سے ہے جس کی طرف [ہمیں] اللہ نے بلایا ہے، اور اس کے عوض جزائے عظیم کی ضمانت دی ہے؛ یوں کہ اگر بالفرض ایک بندہ ابتدائے خلقت سے دنیا کی [عمر] کے اختتام تک دنوں کو روزہ رکھے اور راتوں کو عبادت میں مصروف رہے؛ (تو اس کو ملنے والا ثواب اس دن کے روزے کی برابری نہیں کر سکے گا)۔ (۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) غدیر کے روزے کے خواہاں ہیں اور فرماتے ہیں: "هُوَ يَوْمُ عِبادَةٍ وَصَلوةٍ وَشُكْرٍ لِلّهِ وَحَمْدٍ لَهُ، وَسُرُورٍ لِما مَنَّ اللّهُ بِهِ عَلَيْكُمْ مِنْ وِلايَتِنَا، وَاِنِّى اُحِبُّ لَكُمْ اَنْ تَصُومُوهُ؛ یہ عبادت، اور نماز، اور شکر و سپاس اور حمد و ثناء کا دن ہے؛ اور خوشی منانے کا دن ہے اس نعمت پر جو اللہ نے احسان کرکے تمہیں ہماری ولایت و حکمرانی کی صورت میں عطا کی ہے"۔ (۴)
عید اللہ الاکبر کے روزے کی عظمت
"صِيَامُ يَوْمِ غَدِيرِ خُمٍّ يَعْدِلُ صِيَامَ عُمُرِ اَلدُّنْيَا لَوْ عَاشَ إِنْسَانٌ عُمُرَ اَلدُّنْيَا... وَصِيَامُهُ يَعْدِلُ عِنْدَ اَللَّهِ مِائَةَ حِجَّةٍ وَ مِائَةَ عُمْرَةٍ مَبْرُورَاتٍ مُتَقَبَّلاَتٍ وَهْوَ عِيدُ اَللَّهِ اَلْأَكْبَرُ؛ یوم غدیر کا روزہ دنیا کی عمر کے برابر ہے، اگر انسان دنیا کی عمر کے برابر جی لے ۔۔۔ اور اس دن کا روزہ ایک سو مرتبہ حج مقبول اور سو مرتبہ عمرہ مبرورہ کے برابر ہے، اور یہ اللہ کی سب سے بڑی عید ہے"۔ (۵)
عید اللہ الاکبر، عید غدیر کے روزے کے بارے میں مروی احادیث بکثرت نقل ہوئی ہیں اور یہاں صرف نمونے کے طور چند حدیثوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: بحارالانوار، ج۹۵، ص۳۱۹؛ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، ۱۸ ذوالحجہ کے اعمال۔
۲: بحارالانوار، ج۸۵، ص۳۱۸۔
۳: اقبال الاعمال، ج۲، ص۲۶۲؛ المراقبات، ملکی تبریزی، ص۲۵۷۔
۴: مصباح المتہجد، شیخ محمد بن حسن الطوسی، ص۷۵۸۔
۵: مصباح المتہجد، شیخ الطوسی، ص۷۵۷-۷۵۸۔
Add new comment