یوں تو دین اسلام میں بہت ساری عیدیں ہیں لیکن عید اکبر ایک ہی ہے اور وہ عید غدیر ، لہذا ضروری ہے کہ اس کی قرآن اور حدیث کی روشنی میں جائزہ لیا جائے ۔
۱: آیت تبلیغ:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ (۱)
اے رسول! جو کچھ [علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی امامت و ولایت کے بارے میں] آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اپنا فریضۂ رسالت پورا ہی نہیں دیا ہے؛ اور [ہاں] اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک خدا کافروں کی جماعت کی راہنمائی نہیں کرتا [اور انہیں منزل تک نہیں پہنچاتا]"۔
آیت کریمہ کے نکات:
۱: تبلیغ [پہنچانا] وصول کرنے سے مختلف ہے۔ تبلیغ کا مطلب محض پڑھنا اور تلاوت کرنا ہی نہیں ہے۔ تبلیغ وصول ہے لیکن مصداق کی تفسیر، تشریح، غور و بیان کے ساتھ ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم ہؤا ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کو مسئلے کو اس انداز سے پہنچا دیں کہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہ ہو اور اس میں مخالفین اور مرض سے بھرے دلوں کے مالک لوگوں کے لئے حیلوں اور بہانوں کی گنجائش نہ ہو۔
۲: ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے حکم کا ابلاغ اس قدر اہم تھا کہ اگر نہ انجام کو نہ پہنچتا تو یہ دین اور اس کے تمام اجزاء کے عدم ابلاغ کے مترادف تھا۔ (وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ؛ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو تو گویا آپ نے تبلیغ رسالت کا کام انجام ہی نہیں دیا ہے)۔
3۔ "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ" کی عبارت اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ آنحضرت کو جس چیز کے ابلاغ و تبلیغ کا حکم ہؤا تھا، وہ آپ کی رسالت و نبوت کے عہدے سے تعلق رکھتی تھی۔
۴؛ آیت کریمہ میں عبارت "وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ" (خدا آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا) اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) لوگوں کی ایک جماعت کی فتنہ انگیزیوں اور عدم پیروی سے فکرمند ہوکر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کے آسمانی حکم کو مؤخر کرتے رہے تھے یا شاید مؤخر کرنا چاہتے تھے؛ اور لوگوں کی وہ جماعت کفار، مشرکین اور اہل کتاب پر مشتمل نہیں تھی! جن کی طرف سے آپ فکرمند تھے، کیونکہ یہ آیت آنحضرت کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں نازل ہوئی ہے اور اس زمانے میں کفار و مشرکین اور اہل کتاب کمزور ہو چکے تھے اور ان سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ وہ ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ابلاغ کے حکم کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے ، چنانچہ اس عبارت میں "النَّاسِ" سے مراد وہ منافقین تھے جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے حوالے سے اپنی امیدوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وفات یا شہادت سے وابستہ کیا ہؤا تھا؛ اور وہ سمجھتے تھے کہ صرف اسی صورت میں وہ اسلام پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں؛ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جانشین کا تعین ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا سکتا تھا؛ اور ان ہی سے مخالفت اور فتنہ انگیزی کی توقع کی جاتی تھی۔
جاری ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔
Add new comment