گذشتہ سے پیوستہ
ابوحارثہ نے نجران کے پڑھے لکھے اور بزرگ عمائدین جیسے شرحبیل، عبداللہ بن جبّار بن فیض غور و فکر اور مشورہ کے لئے بلائے جنہوں نے یہ طے کیا کہ نصاری کی طرف سے کچھ ہوشمند اور علم و عقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پاس جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے ، اسی بناء پر ساٹھ افراد کی کمیٹی تشکیل دی گئی جن میں سے ان کے عظیم علماء عاقب ابوحارثہ اور ایہم بھی تھے۔
نجران کا وفد بڑی شان و شوکت کے ساتھ سونے و جواہرات کے زیورات سے آراستہ فاخرانہ لباس پہنے مدینہ پہنچے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں ، جب یہ وفد بارگاہ رسالت مأب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم میں حاضر ہوا ، تو اسوہ حسنہ کے مالک رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے نجران سے آئے افراد کے ساتھ بے رخی کا اظہار کیا اور ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جو شرکائے وفد کیلئے حیرت انگیز تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے پہلے دعوت دی اب بے رخی کیوں دکھا رہے ہیں؟
علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور بے توجہی کا سبب نہ جان سکے جس پرچند لوگ انھیں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علی علیہ السلام نے علمائے نجران سے فرمایا: ’’ تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاؤ ، انہوں نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بات مانتے ہوئے ایسا ہی کیا ، اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ، اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام کی نظر میں ظاہری جاہ و جلال کی چنداں اہمیت نہیں ۔
مباحث کے دوران پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم حضرت عیسی سلام اللہ علیہ کو عبد کے بجائے خدا ماننے، سور کے گوشت کھانے سے اجتناب نہ کرنے، حضرت عیسیٰ سلام اللہ علیہ کے معجزات اور انکے اللہ کے بیٹا ہونے کے عقائد کو دلائل سے لاجواب کردیا تو نصاری کی زبانیں گنگ ہوگئیں ان پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تکنے لگے جو خاموشی سے سرجھکائے بیٹھا رہا اور کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا ، نصاری نجران آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی اور کٹ حجتی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے وحی الہی کے تحت عیسائیوں کو دعوت دی کہ دونوں فریق اپنے بیٹوں، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے۔
Add new comment