گذشتہ سے پیوستہ
۲: "الْيَوْمَ" سے مراد وقت کا ایک خاص دور نہیں بلکہ ایک خاص دن ہے جو خاص اور بہت اہم اور منفرد خصوصیت کا حامل ہے: "يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ - أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ - أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا؛ کافر لوگ تمہارے دین سے ناامید ہو گئے - میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا - میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی - میں نے تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا"۔
اور بلا شبہ یہ دن تاریخ اسلام میں ایک حساس دن اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳: آیت میں دین اسلام سے جن نا امید ہونے والے کافروں کا تذکرہ ہؤا ہے؛ اور خداوند متعال نے اس سے خوفزدہ نہ ہونے کا حکم دیا ہے، وہ درحقیقت منافقین ہیں، اور اہل کتاب یا مشرکین یا کفارِ مکہ نہیں ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رسالت کے آخری برسوں میں اہل کتاب، مشرکین اور کفارِ مکہ بہت کمزور ہوچکے تھے اور مؤمنین ان سے نہیں ڈرتے تھے۔
۴: علامہ سید محمد حسین طباطبائی اپنی تفسیر "المیزان" میں "دین سے کفار کی ناامیدی" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"منافق کافروں کی ناامیدی اس وقت عملی صورت میں نمایاں ہوتی ہے جب خدائے متعال دین کی پاسداری کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد کے دور کے لئے کسی فرد کو متعین فرماتا ہے کیونکہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین مزید " فرد پر منحصر" ہونے کے مرحلے سے گذر کر "نوع پر منحصر" ہونے کے مرحلے میں اور "حدوث و زوال کے مرحلے سے بقاء اور دوام کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور اپنی حیات کو جاری رکھ سکتا ہے"۔
۵: رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) اپنے ایک خطاب میں "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اللہ کے کسی بھی فرعی حکم کے بارے میں نہیں فرمایا گیا ہے کہ "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ ؛ اج تمھاری دین سے کافر مایوس ہوگیا " چنانچہ یہ قضیہ کچھ اور ہے؛ احکام فرعیہ کے سوا ، وہ قضیہ کیا ہے؟ وہ قضیہ اسلامی معاشرے کی قیادت و زعامت ہے، یہ اسلامی معاشرے میں حکومت و امامت کا قضیہ ہے ، جی ہاں! ممکن ہے کہ خلاف ورزی کی جائے جیسا کہ خلاف ورزی کی گئی؛ بنی امیہ، بنی عباس اور دوسروں نے امامت و خلافت وغیرہ کے نام سے ملوکیت قائم کرکے بادشاہانہ انداز سے حکومت کی۔ [لیکن] اس سے فلسفۂ غدیر کو کوئی زک نہیں پہنچتی؛ [فلسفۂ غدیر قائم رہتا ہے]۔ غدیر میں "تعیین" کا واقعہ در حقیقت "ضابطے کی تعیین" کا واقعہ ہے، قاعدے کی تعیین ہے۔ ایک قاعدہ اسلام میں وضع کیا گیا؛ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں اس قاعدے کو وضع کیا۔ [اب] یہ قاعدہ کیا ہے؟ امامت کا قاعدہ، ولایت کا قاعدہ ۔۔۔ یہ قاعدہ غدیر میں وضع کیا گیا۔ یہ قاعدہ وضع ہؤا تو "يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ" [کا اعلان ہؤا]؛ دشمن مایوس و نا امید ہوگئے اس سے کہ اس دین کا رخ موڑ سکیں اور اس کو بدل دیں؛ کیونکہ دین کا رخ اور راستہ اس وقت تبدیلی کا شکار ہوتا ہے جب وہ بنیادی نقطہ اور وہ بنیادی مرکزہ بدل جائے؛ یعنی طاقت کا مرکزہ، انتظام کا مرکزہ، زعامت و سربراہی کا مرکزہ، [جو] اگر بدل جائے تو سب کچھ بدل جاتا ہے"۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: رہبر معظم انقلاب کی تقریر سے اقتباس ، 20 ستمبر سنہ 2016ع ۔
Add new comment