مباہلہ، اسلام کی صداقت کی لازوال یادگار (۴)

Sun, 06/30/2024 - 12:54

گذشتہ سے پیوستہ

ایک روایت کے مطابق  جوصلح نامہ لکھا گیا  اس میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے، مباہلہ کی عظمت و رفعت صحابہ کرام کی نظر میں کس قدر زیادہ تھی اس کا اندازہ اس حدیث نبوی سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ جو تین سعادتیں حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہوئیں ان میں سے ایک کا بھی میرے لئے  ہونا میرے  نزدیک سرخ اونٹوں سے بہتر ہے،غزوہ  تبوک کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا حضرت علی علیہ السلام کو وہی نسبت دینا جو ہارون ؑکو موسی علیہ السلام سے تھی ، خیبر میں علی علیہ السلام کو یہ کہہ کر علم دینا کہ وہ  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی (اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) اس سے سے محبت کرتے ہیں اور تیسری چیز آیت مباہلہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فاطمہ علیہا السلام، علی علیہ السلام، حسن اور حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یا اللہ یہ  میرے اہلبیت ہیں۔ (۱)

مباہلہ کا واقعہ جہاں اسلام کی فتح کی عظیم یادگار ہونے کے ساتھ پنجتن پاک کی روحانیت،جلالت بزرگی کا بھی آئینہ دار ہے، یہ روحانیت کے مادیت پر غلبے کی علامت ہے یہ واقعہ تصنع بناوٹ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کے بجائے سادگی کے اسلامی پیغام کا درس دیتا ہے اور اسلام کی امن پسندی کا نشان ہے ، آج جب  شیطانی طاقتیں میڈیا کے زور پر اسلام کو دہشت گردی اور ظلم و جبرکے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش میں مصروف  ہیں اسلام کے امن وانسانیت دوستی  کے نشانات کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

اہل سنت برجستہ عالم دین محمد عامر عثمانی ملی مباہلہ کے سلسلہ میں تحریرکرتے ہیں :

مباہلہ کا مطلب : کوئی ایسا معاملہ جس کے حق وباطل میں دو فریق کے درمیان نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع اور جھگڑا ختم نہ ہو تو پھر ان کا یہ طریقہ اختیار کرنا کہ دونوں فریق مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس معاملہ میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا، اس طور پر دعا کرنے کو مباہلہ کہتے ہیں ۔

شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے سورہ آلِ عمران کی آیات میں دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو انہیں آیات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان سے مباہلہ مت کرنا اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری اولاد کبھی فلاح نہیں پاسکتے، چنانچہ یہ وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم مباہلہ کے لیے تیار تو ہوئے تھے، لیکن مد مقابل کے راہ فرار اختیار کرلینے کی وجہ سے باقاعدہ مباہلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱: ترمذی ، ابوعیسیٰ محمد ، جامع ترمذی ، ج ۲ ، ح ۱۶۹۱ ؛ مشکوۃ شریف ، ج۵ ، ح ۷۶۸ ۔

۲: https://www.usmanidarulifta.in/2021/04/blog-post_26.html

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 16