گذشتہ سے پیوستہ
ہمارے دوست نے گھنٹہ بھر سفر کیا ہوگا کہ میں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور کہا: "آپ سے بہت ہی زیادہ ضروری کام پیش آیا ہے فورا واپس تشریف لائیں"۔
کہنے لگے: نہیں بھائی، میں واپس نہیں آسکتا، میرے گھر والے میرا انتظار کررہے ہیں اور پھر میں نے کافی مسافت طے کرلی ہے، کیا کام ہے آپ کا مجھ سے؟ فون پر ہی کہہ دیں"۔
میں نے کہا: کام بہت اہم ہے اور میں فون پر نہیں بتاسکتا آپ کو خود یہاں موجود ہونا چاہئے۔
میرے شدید اصرار پر وہ واپس آئے اور جب میرے پاس پہنچے تو کہنے لگے: آپ کا اہم کام کیا تھا کہ دوبارہ اپنے پاس لوٹا دیا؟
میں نے کہا: "میں آپ کا دوست ہوں"
بڑے ناراض ہوئے اور کہنے لگے: یہی بتانے کے لئے مجھے واپس لائے ہیں یہاں؟
میں نے کہا: جی ہاں یہ بتانے کے لئے کہ میں آپ کا دوست ہوں اور آپ کو دوست رکھتا ہوں!
میرے دوست نے کہا: "میرے گھر والے منتظر تھے اور مجھے جانا چاہئے تھا"؛ آپ نے مجھے اتنا طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس بلایا صرف یہ کہنے کہ لئے کہ "آپ میرے دوست ہیں یا مجھے دوست رکھتے ہیں؟ کیا مجھے ایذا پہنچانے کا ارادہ تھا؟"۔
میں نے کہا: میرا سوال بھی یہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ اتنی عجلت سے جارہے ہیں اس لئے کہ "آپ کے گھر والے آپ کا انتظار کررہے ہیں" اور میں جب آپ کو لوٹاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ "میں آپ کو دوست رکھتا ہوں" تو آپ ناراض ہوجاتے ہیں اور مجھے ناقص العقل قرار دیتے ہیں لیکن جب ہزاروں مسلمانوں کے گھر والے منتظر ہوتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کو لوٹا دیتے ہیں اور سورج کی شدید تمازت میں تین دن تک روک لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ "جس کا میں "دوست" ہوں یہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ان کے "دوست" ہیں، تو آپ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس عمل کو معقول سمجھتے ہیں؟ کیا اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایسی صورت حال میں فرمایا ہوتا کہ "جس کا میں "دوست" ہوں یہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) بھی ان کے "دوست" ہیں۔ تو کیا مسلمان آپ سے ناراض نہ ہوتے اور (معاذ اللہ) مسلمان اپنے پیغمبر کی عقل پر شک نہ کرتے؟
میرے دوست حیرت زدہ ہوچکے تھے اور ان کی زبان بند ہوچکی تھی، انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ کتنی مضحک بات ہے یہ کہ کہا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اتنی شدید گرمی میں تین دن تک مسلمانوں کو روکا اس لئے کہ ان سے کہہ دیں کہ "امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ان کے دوست ہیں"؛ اور انھوں نے کم از کم یہ اقرار کرلیا کہ "غدیر خم کے واقعے میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مقصد ایک بہت اہم حقیقت کا اعلان کرنا تھا ورنہ تو دوستی کے اعلان کے لئے ضروری نہیں تھا کہ مسلمانوں کو لوٹا کر تین دن تک نہایت شدید گرمی میں روک لیتے"۔
اور پھر مسلمانوں کو آپس میں دوست ہونا چاہئے، یہ قرآن و سنت کا قطعی حکم ہے اور اس کے لئے صحرائے عرب میں تین دن تک اجتماع کی ضرورت نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: زاہدی ، شریف ، "مجھے شیعہ ہونا چاہئے تھا"، ص۱۳۸ ۔
Add new comment