تاریخ
حضرت نوح علیہ السلام شب و روز اپنی امت کی ہدایت اور انہیں بت پرستی کے چنگل سے نجات دینے میں کوشاں رہے ، اپ علیہ السلام نے جس قدر بھی انہیں نصیحت کی بے سود رہی اور جس قدر بھی انہیں عذاب الھی سے ڈرایا اور خطرے کی جانب متوجہ کیا ان لوگوں نے اپنے برے اعمال سے ہاتھ نہ کھینچا یہاں تک انہوں نے گستاخانہ
انہوں [حضرت نوح علیہ السلام] نے جواب دیا کہ اے قوم تمہارا کیا خیال ہے ، میرے پاس پروردگار کی عطا کردہ نشانیاں ہیں جسے اس نے مجھے اپنی رحمتوں کے زیر سایہ عطا کیا ہے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتی اور تمھاری نگاہوں سے اوجھل ہے ، اے قوم میں اپنی تبلیغ کے بدلے تم سے کوئی مال تو نہیں چاہتا - میرا اجر تو ال
نبیوں میں سے وہ نبی (س) جن کا ۴۳ بار قران کریم میں نام ایا ہے اور قران کریم کا ۷۱ واں سورہ اپ کے مبارک نام سے مخصوص ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ، اپ پہلے اوالعزم پیغمبر اور کتاب خدا و شریعت کے مالک تھے ۔
روایت میں نقل ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے کے ظالم و جابر بادشاہ کے حکم سے اپ کو قتل کرنے کے لئے گیا، حضرت ادریس علیہ السلام مجبور ہوکر شھر چھوڑ کر چلے گئے، نتیجہ میں لوگ قحطی اور بھوک مری کا شکا ہوگئے اور نہایت ہی ذلت و حقارت کی زندگی ان کا مقدر بن گئی ۔ (۱) لہذا ہمیں
«وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا؛ اور کتاب خدا میں ادریس [علیہ السّلام] کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ بہت زیادہ سچے پیغمبر [علیہ السّلام] تھے ، اور ہم نے ان کو بلند جگہ تک پہنچا دیا ہے» اس سلسلہ میں کہ اس ایت کریمہ میں جناب ادریس علیہ
سید ابن طاووس نے ایک دوسرے مقام پر نقل کرتے ہوئے تحریر کیا کہ مجھے صحف ادریس علیہ السلام میں ملا ہے کہ اپ علیہ السلام نے فرمایا: اے انسان آگاہ رہ اور یقین کر کہ تقوا اور پرہیزگاری، عظیم حکمت ، بزرگ نعمت ، نیکی و سعادت کی جانب ھدایت کرنے والا ، اچھائیوں ، فہم و عقل کے دروازے کی کنجی ہے کیوں کہ خد
علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ سید ابن طاووس سے نقل کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا: مجھے صحف ادریس علیہ السلام میں ملا ہے کہ اپ (ع) نے فرمایا: «اے انسان !
انبیاء الھی میں سے دیگر نبی ، جن کا نام قران کریم دوبار ، سورہ انبیاء ایت ۸۵ اور سورہ مریم ایت ۵۶ میں ایا ہے اور انہیں صدیق کے طور پر یاد کیا گیا ہے ، وہ جناب ادریس علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ۔
گذشتہ سے پیوستہ
جناب ادم علیہ السلام نے فرمایا : تمھارا مقام کیا ہے ؟ تو اس نے اپ کو جواب دیا کہ میری جگہ اور میرا مقام انسانوں کا دماغ اور ان افکار میں ہے ۔