گذشتہ سے پیوستہ
جناب ادم علیہ السلام نے فرمایا : تمھارا مقام کیا ہے ؟ تو اس نے اپ کو جواب دیا کہ میری جگہ اور میرا مقام انسانوں کا دماغ اور ان افکار میں ہے ۔
جانب ادم علیہ السلام نے دوسرے سفید رو سے سوال کیا تم کون ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں محبت اور شفقت ہوں ۔ جناب ادم علیہ السلام نے سوال کیا تمھاری جگہ کہاں ہے تو اس نے جواب میں کہا انسانوں کے دل میں ہے ۔
جناب ادم علیہ السلام نے تیسرے سفید رو کو خطاب کرکے کہا تم کون ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں حیا ہوں ۔ جناب ادم علیہ السلام نے دریافت کیا کہ تمھاری جگہ کہاں ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں انسانوں کی انکھوں میں رہتی ہوں ۔
جناب ادم علیہ السلام سمجھ گئے عقل کا مرکز اور سنٹر مغز ہے ، محبت اور شفقت کا مرکز دل اور حیا کا مرکز انکھیں ہیں ۔
اور پھر اپ علیہ السلام بائیں سمت متوجہ ہوئے اور سیاہ رو کو خود کو پہچانوانے کا مطالبہ کیا ، ان میں سے ایک کو خطاب کرکے کہا : تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ میں خود خواہی اور تکبر ہوں ۔ جناب ادم علیہ السلام نے سوال کیا تمھاری جگہ کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا میری جگہ انسان کے دماغ اور ان کے افکار ہیں ۔
جناب ادم علیہ السلام نے اسے خطاب کرکے کہا کہ کیا وہ عقل کی جگہ نہیں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ! لیکن جب بھی میں اس جگہ موجود رہوں عقل زائل ہوجاتی ہے ۔
جناب ادم علیہ السلام نے دوسرے سیاہ رو سے سوال کیا تم کون ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں حسد ہوں ، جناب ادم علیہ السلام نے سوال کیا تمھاری جگہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا کہ میری جگہ انسانوں کے دل میں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا کیا وہ محبت و شفقت کا مقام نہیں ہے تو اس نے جواب دیا کہ جس وقت میں وہاں رہوں محبت و شفقت وہاں سے نکل جاتی ہے ، اس وقت وہ دنوں وہاں نہیں ہوتے ۔
جناب ادم علیہ السلام نے تیسرے سیاہ رو سے سوال کیا کہ تم کون ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں طمع و لالچ ہوں ، جناب ادم علیہ السلام نے اس سوال کیا کہ تمھاری جگہ کہاں ہے تو اس نے جواب دیا کہ میری جگہ انکھیں ہیں ، تو جناب ادم علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا وہ جگہ حیا کی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ کیوں نہیں ، مگر جب میں وہاں رہو تو حیا نہیں رہتی ۔ (۱)
اس طرح حضرت ادم علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ خود خواہی اور تکبر عقل کے دشمن ، حسد ، محبت اور شفت کے دشمن ، طمع اور لالچ ، حیا کے دشمن ہیں ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: عاملی ، سید محمد ، المواعظ العددیہ ، ص۱۸۹ ۔
۲: اصفهانی ، علی عطائی ، قصص الانبیاء ، ص ۳۷ ۔
Add new comment