نبیوں میں سے وہ نبی (س) جن کا ۴۳ بار قران کریم میں نام ایا ہے اور قران کریم کا ۷۱ واں سورہ اپ کے مبارک نام سے مخصوص ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ، اپ پہلے اوالعزم پیغمبر اور کتاب خدا و شریعت کے مالک تھے ۔
حضرت نوح کا اسم گرامی’’عبدالغفار‘‘ تھا مگر اپ امت کی حالت زار دیکھ کر بہت زیادہ گریہ اور نوحہ کرتے تھے لہذا اپ کو نوح کہا جانے لگا ، اپ کے مبعوث ہونے اور تبلیغ کا مقام عراق و شام ہے ۔ (۱)
چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ حضرت (ع) نے فرمایا: حضرت نوح علیہ السلام ۲۵۰۰ سال زندہ رہے ، ۸۵۰ سال اعلان نبوت سے پہلے اور ۹۵۰ سال مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد لوگوں کی ہدایت میں زندگی گزاری نیز ۲۰۰ سال تک لوگوں سے دور کشتی بنانے میں مصروف رہے اور طوفان انے کے بعد ۵۰۰ سال تک زندگی گزاری ۔ (۲)
قوم حضرت نوح علیہ السلام کا ضدی پن
حضرت نوح علیہ السلام اس وقت لوگوں کے درمیان مبعوث بہ رسالت ہوئے جب لوگ فساد و بت برستی میں ڈوبے ہوئے تھے ، اپنی غلط اور باطل رسم و رواج پر ضدی اور مُصِر تھے ، حتی وہ اپنے بچوں کے ہاتھ پکڑ کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس لاتے اور کہتے اس بوڑھے کی ہرگز بات نہ سننا ، اس پاگل کی باتیں تمھیں ہرگز دھوکھہ نہ دے ، وہ اس اصرار اور ضدی پنے کو اپنے بتوں کے دفاع اور ان سے قصد قربت کے لئے انجام دیتے تھے ، حضرت نوح علیہ السلام ان کی توہین پر توجہ کئے بغیر روز و شب ان کی ہدایت میں مصروف رہتے ، خداوند متعال نے بھی میں حضرت نوح علیہ السلام کی شبانہ روز تبلیغ اور ان کی قوم کے ضدی پنے کا تذکرہ کیا ہے : انہوں [حضرت نوح علیہ السلام] نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو شب و روز بلایا پھر بھی ان پر میری دعوت کا کوئی اثر نہ ہوا سوائے اس کے کہ انہوں نے فرار اختیار کیا اور جب بھی میں نے ان کے حق میں دعا کی کہ تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا ، اپنے کپڑے اوڑھ لئے ، اپنی بات پر اڑگئے اور شدت سے اکڑے رہے ۔ (۳)
تو ان کی قوم کے بڑے لوگ جنہوں نے کفر اختیار کرلیا تھا - انہوں نے کہا کہ ہم تو تم کو اپنا ہی جیسا ایک انسان سمجھ رہے ہیں اور تمہارے اتباع کرنے والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے معاشرہ کے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں ۔ ہم تمہیں خود سے بہتر اور افضل نہیں سمجھتے ہیں بلکہ تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: اصفهانی ، علی عطائی ، قصص الانبیاء ، ص ۳۷ ۔
۲: مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار ، ج۱۱، ص۲۸۵ ۔
۳: قران کریم ، سورہ نوح، ایت ۵،۶،۷ ۔«قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا» ۔
Add new comment