اخلاق وتربیت
اسلامی نقطۂ نگاہ میں قناعت پسند بیوی کو بہترین بیوی قرار دیا ہے ، اسکے برخلاف جو بیوی اپنے شوہر کے لئے بوجھ ہو اور فضول خرچی ہو اسلام نے اسے بری بیوی کا درجہ دیا ہے۔
خلاصہ: اسلامی نقطۂ نگاہ سے اچھا شوہر وہ ہے جو با ایمان ہو، با اخلاق ہو، اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کو اٹھانے، ان کی نیک خواہشات کو پورا کرنے اور اپنی شریک حیات کو سمجھنے والا اور اس سے محبت کرنے والا ہو۔
خلاصہ: بیوی کا سکون اور آرام شوہر کے وجود سے ہے خصوصا اگر شوہر مہربان، با ایمان اور با وفا ہو، کیونکہ نیک، مہربان اور پاک سیرت شوہر دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ بہتر ہے اور ایسا نیک سیرت شوہر اسلام کے نقطۂ نظر میں بہترین شوہر کا درجہ رکھتا ہے۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے بہترین بیوی کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ قانع ہو، لہذا ہر خاتون خانہ کو اچھی بیوی بننے اور بابرکت بیوی قرار پانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے شوہر کی زندگی میں قانع بنے رہنے کی سعادت کو باقی و جاری رکھے ۔
خلاصہ: انسان کا حقیقی دوست اسکی عقل ہے اور جہالت اسکی دشمن ہے۔
خلاصہ: سخاوت کرنے کے کئی فائدے اور کنجوسی کے کتنے نقصانات ہیں، حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے سخاوت کے فائدے اور کنجوسی کے نقصانات قریب اور دور ہونے کے لحاظ سے بیان فرمائے ہیں۔
خلاصہ: مومن کی پریشانی دور کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اگر یہ آسان کام دنیا میں کوئی کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کے بدلہ میں اس کی پریشانی کو اس کے دل سے دور کرے گا، غور طلب بات یہ ہے کہ اتنے آسان عمل کا اجر اُس دن ملے گا جب انسان امداد الہی کا انتہائی ضرورتمند ہوگا۔
خلاصہ: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف نماز روزہ ہے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے رزق حلال کمانا، دنیاوی کام ہے، لہذا وہ نماز روزہ کے بہانے سے محنت کرنے سے فرار کرتے ہیں، جبکہ گھرانہ کے لئے کمائی کرنا بھی عبادت ہے اور نماز روزہ وغیرہ بھی عبادت ہے، اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں سب عبادات کو دیکھنا چاہیے۔
خلاصہ: مومن کو خوش کرنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اس عمل کو فرائض کے بعد اللہ کی بارگاہ میں سب سے افضل عمل بیان فرمایا ہے۔
خلاصہ: مومن کو خوش کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مختلف مومنین کو کس طرح خوش کیا جاسکتا ہے تاکہ شرعی حدود سے بھی آگے نہ بڑھا جائے اور فضول طریقے بھی استعمال نہ کیے جائیں، بلکہ ہر مومن کی جو پریشانی، مشکل، تکلیف، مالی اور گھریلو مسائل وغیرہ ہیں ان کو حل کیا جائے، لہذا سب مومنین کو ایک ہی طریقے سے خوش نہیں کیا جاسکتا، بلکہ حالات کے تقاضے کو دیکھا جائے۔