خلاصہ: آج کل نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ پر ماں باپ سے حسن سلوک کا ذکر ملتا ہےمگر وہ حکم و تنبیہ اولاد کے حق کے لئے نہیں ملتی؟ مقالہ ھذا میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
خداوند حکیم نے بہت سی آیات میں اولاد پر زور دیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، اسکے برخلاف، والدین کو بہت کم غیر معمولی حالات میں اولاد کو اہمیت دینے کا حکم دیا ہے جیسے بھوک کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم۔
یا صرف اس پر زور دینا کہ اولاد زینت، تفریح کا سامان اور والدین کے لئے آزمائش ہے اور اولاد کا ذکر مال و متاع کے ہمراہ اور تفاخرکے مقام میں کیا ہے[انفال/28 و حدید/20]۔
چنانچہ آج کے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ پر ماں باپ سے حسن سلوک کا ذکر ملتا ہے، ان سے محبت کا ذکر ملتا ہے، مگر وہ حکم و تنبیہ اولاد کے لئے نہیں ملتی؟
اس کا راز یہ ہے کہ اولاد کے والدین کے ساتھ تعلق کی بنسبت والدین کا اولاد کے ساتھ تعلق زیادہ شدید ہوتا ہے بالخصوص ماں جو ہمیشہ اپنی اولاد کو محبت کی ردا میں لپیٹےرکھتی ہے اور انکی محبت میں قیمتی سے قیمتی اور نفیس سے نفیس چیز بھی قربان کردیتی ہے، اور اسکی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اسکی اولاد سعاتمندانہ زندگی بسر کرے۔
لہذا والدین کو اس بارے میں کسی خاص تنبیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی نسل کی صحیح تربیت کرنے کے لئے فقط انکے ضمیر کو جگادینا کافی ہے۔اور چونکہ اولاد کی محبت والدین کے ساتھ فطری طور پر کمزور ہوتی ہے لہذا قرآن کریم نے انہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ طرفین کی محبت میں توازن آجائے اور شاید اسی وجہ سے خداوند حکیم نے اپنے حق کے بعد انکے حق کو رکھا ہے اور دقت نظر سے دیکھیں تو والدین کے ساتھ حسن سلوک، حقیقی عبادت کا اجتماعی مظہر ہے اور عبادت اور اسکے اجتماعی مظاہر کے درمیان ہر قسم کی تفکیک و جدائی بالخصوص والدین کے ساتھ بدسکوکی اگر چہ’’اف‘‘ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، عبادت کو اسی طرح خراب کردیتی ہے جیسے سرکہ کا ایک قطرہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔
Add new comment