رمضان المبارک سے متعلق مضامین
ہم نے گذشتہ قسط میں دعائے ابوحمزه ثمالی کے فقرے « وَلا تَمْكُرْ بِی فِی حِیلَتِكْ » کی شرح میں تحریر کیا تھا کہ اگر خداوند متعال کی ذات چاہے تو انسان اپنے برے مقصد تک نہیں پہونچ سکتا ہے ۔
روزہ دلوں کی جلا اور نورانیت کا سبب [1] نیز نفسانی و حیوانی خواھشات کے دور ہونے کا باعث ہے ، [2] روزہ دنیاوی بلاوں اور آفتوں کے مقابل سپر اور قیامت کے عذاب سے نجات کا وسیلہ ہے ، [3] روزہ دلوں کے چین و سکون اور اطمینان قلب کا سبب ہے ۔[4]
«روزه» لغت میں امساک اور باز رہنے کے معنی میں ہے اور دین اسلام میں روزہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان ، طلوع فجر سے غروب آفتاب تک خداوند متعال کے حکم کی پیروی اور اطاعت میں کھانے ، پینے اور روزہ توڑنے والی دیگر چیزوں سے پرھیز کرے ۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دعا، بہترین عبادت ہے اور خداوند متعال نے بھی قران کریم میں اپنے بندوں سے دعا کرنے کی تاکید کی ہے جیسا کہ سورہ غافر کی ۶۰ ویں ایت شریفہ میں ارشاد ہے «ادْعُونی اَستَجِبْ لَكُمْ إنَّ الَّذین یَسْتَكْبِرونَ عَنْ عِبادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرین ؛ (۱)
اگر چہ عبد و معبود کے درمیان راز و نیاز کا راستہ ھمیشہ کھلا ہے اور نبی و امام علیھم السلام اور احادیث قدسیہ نے اس کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں کیا ہے مگر ماہ مبارک رمضان جسے ایام کیلئے کہ جو اولیائے الھی کیلئے عید کے ایام ہیں ، خاص فضلیتیں بیان کی گئی ہیں ، ہم اس مختصر سی مدت میں قارئین کی خدمت
مورخین اور صاحبان قلم نے پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ذکر کیا ہے کہ «کان رسولالله صلیالله علیہ وآلہ وسلم اجود الناس بالخیر و کان اجود ما یکون فی رمضان» [۱] یعنی رمضان میں رسول اسلام (ص) کا جود و کرم اور اپکی سخاوت سب سے زیادہ تھی ۔
اگر عام لوگوں اس بات پر ایمان و یقین ہوجائے کہ روزہ رکھنے سے بھی بالاتر کوئی عمل ہے اور وہ روزہ دار کو افطاری دینا ہے تو یقینا ماہ مبارک رمضان میں معاشرہ اور سماج کی صورت حال اور ماحول کچھ اور ہی ہوگا ۔
طبرسی تفسیر مجمع البیان میں پیغمبر اکرم(ص) سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کے مطابق جو شخص سورہ آل عمران کی تلاوت کرے، خداوندعالم ہر آيت کے بدلے میں اس شخص کے لیے پل صراط سے عبور کرنے کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔
تبدیلی اور بدلاو اس وقت مفید ہے جب مناسب وقت پر انجام پائے اس لحاظ سے اگر ہم اپنے اندر تبدلی اور بدلاو کے خواھاں ہوں تو پھر ہمیں وقت شناس بھی ہونا چاہئے کیوں دیر کرنے یا بے وقت تبدیلی ممکن ہے نقصان دہ ہو ، اس بنیاد پر اگر ہم تبدیلی اور بدلاو کے خواہاں ہیں تو ہمیں وقت شناس ہونا چاہئے اور جب تک دیر