شرح دعائے ابوحمزه ثمالی (۱)

Wed, 04/06/2022 - 07:02
دعائے ابوحمزه ثمالی

اگر چہ عبد و معبود کے درمیان راز و نیاز کا راستہ ھمیشہ کھلا ہے اور نبی و امام علیھم السلام اور احادیث قدسیہ نے اس کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں کیا ہے مگر ماہ مبارک رمضان جسے ایام کیلئے کہ جو اولیائے الھی کیلئے عید کے ایام ہیں ، خاص فضلیتیں بیان کی گئی ہیں ، ہم اس مختصر سی مدت میں قارئین کی خدمت میں اس نورانی دعا [ابوحمزه ثمالی] کی مختصر شرح پیش کریں گے۔

دعائے ابوحمزه ثمالی وہ دعا ہے جسے امام سید سجاد زین العابدین علیہ السلام ماہ مبارک رمضان میں ہر روزہ سحر کے وقت پڑھا کرتے تھے اپ کی سیرت پرعمل اور ائمہ طاہرین سے اظھار محبت کا تقاضہ ہے کہ ان کے چاہنے والے بھی اس نورانی دعا کی تلاوت کیا کریں ۔

دعائے ابوحمزه ثمالی کا شیعہ احادیث اور روایات کی کتابوں میں تذکرہ موجود ہے ابراھیم بن علی حارثی کفعمی نے مصباح كَفعَمی اور سیّد بن طاووس نے اقبال الاعمال میں اس دعا کو نقل فرمایا ہے اور مرحوم سیّدبن طاووس کے بیان کے مطابق اس دعا کی سند بھی معتبر ہے ۔

ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول روایتوں کے مطابق ابوحمزة ثمالی زہد و تقوائے الھی کے لحاظ سے سلمان عصر تھے اور امام ھشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیھما السلام سے نقل ہے کہ ابوحمزة ثمالی لقمان عصر تھے ، اپ نے چار اماموں یعنی حضرت امام زین العابدین علیه السلام ، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام موسی كاظم علیہ السلام سے ملاقات کی ہے اور تمام چار اماموں سے معارف الھی سیکھا ہے اور بخوبی ان سے استفادہ کیا ہے ۔

ابوبصیر، ابوحمزه ثمالی قریبی دوست اور ساتھی نقل کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو حضرت نے مجھ سے ابوحمزہ ثمالی کے سلسلہ میں دریافت کیا اور فرمایا ابوحمزہ کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟

میں نے کہا کہ ان سے جدا ہوا تو وہ مریض اور بدحال تھے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا جب ان کے پاس جانا تو انہیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ تم فلاں ماہ میں اور فلاں دن انتقال کرجاو گے ۔(۱)

لہذا سند کے اعتبار سے دعائے ابوحمزة ثمالی مکمل اور معتبر ہے اس کے علاوہ اس دعا کے فقرے اور مفھوم نیز الھی معارف کا عظیم سمندر ہے ۔

روایت کو دو لحاظ سے معتبر سمجھا جا سکتا ہے ، ایک سند کے لحاظ سے اور دوسرے مفھوم اور معنی کے لحاظ سے ، کبھی ممکن ہے سند کے لحاظ سے کوئی روایت ضعیف ہو یعنی راوی مشھور یا شناختہ شدہ نہ ہو یا راوی کی تعداد کم ہو لیکن اگر اس کا مفھوم عمیق اور بلند ہو اور قران کریم و معتبر روایات میں موجود مفاھیم سے مطابقت بھی رکھتی ہو کہ جس سے انسان کو اس بات کا یقین اور اطمینان حاصل ہوجائے کہ اس طرح کے مطالب خاندان عصمت و طهارت سلام الله علیهم أجمعین کے سوا کسی اور کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتے تو وہ مطالب معتبر شمار کئے جاتے ہیں ، اور رہ گئی بات ایت کریمہ « إنْ جآءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَیَّنُوا ؛ ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو» (۲) کی تو اس کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ انسان خبر پر یقین حاصل کرسکے ، مگر دعائے ابوحمزة ثمالی دونوں ہی زاویہ سے معتبر و مستند ہے ، کیوں کہ اس کے روای بھی معتبر ہیں اور اس کے مفاھیم و معانی نیز اس میں موجود الھی معارف بھی اعلی ترین درجہ اور رتبہ کے حامل ہیں ۔

جاری ہے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: الخوئی، السيد أبوالقاسم ، معجم الرجال الحدیث، ج ۴، ص ۲۹۴ و  قمی ، شیخ عباس ، سفینة البحار، ماده حمز ۔
۲: قران کریم ، سورہ حجرات ، ایت ۶ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 87