شرح دعائے ابوحمزه ثمالی (۴)

Sun, 04/10/2022 - 06:44
دعا

ہم نے گذشتہ قسط میں دعائے ابوحمزه ثمالی کے فقرے « وَلا تَمْكُرْ بِی فِی حِیلَتِكْ » کی شرح میں تحریر کیا تھا کہ اگر خداوند متعال کی ذات چاہے تو انسان اپنے برے مقصد تک نہیں پہونچ سکتا ہے ۔

صاحبان لغت کہنا ہے کہ "مکر" یعنی مرموز وسائل سے استفادہ ، قران کریم کی ایات اس بات پر شاھد اور گواہ ہیں کہ تمام وسائل خداوند متعال کے قبضہ قدرت میں اور اس کے اختیار میں ہیں یعنی دونوں جھان اس ذات لایزال کے قبضہ قدرت میں ہیں ، جیسا کہ قران نے سورہ ابراھیم کی ۴۶ ویں ایت شریفہ میں فرمایا  « وَعِندَاللهِ مَكرُهُمْ وَ إنْ كَانَ مَكرُهُمْ لَتَزُولُ مِنْهُ الجِبال ؛ اور ان لوگوں نے اپنا سارا مکر صرف کردیا مگر خدا کی نگاہ میں ان کا سارا مکر ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں  ۔ » (۱) چونکہ خداوند متعال کے پاس یہ توانائی اور طاقت موجود ہے کہ ان کا مکر اور انکی حیلہ گری کو خود ان کی جانب اور ان کی سمت پلٹا دے ، ان کے مکر اور بندوں کے درمیان حائل کھڑا کرکے انہیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے سے روک دے  ۔

امام سجاد سلام الله علیہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ خدایا ! ہمیں ہماری گناہوں کی وجہ سے سزا نہ دے اور ہم پر عذاب نہ کر! ہمیں ہمارے مکر و فریب ، ہماری بے ادبی اور برے برتاو کی وجہ سے اپنی حمایت اور اپنی تدبیروں سے دور نہ کر ! کیوں کہ کوئی بھی اپنے مقصد کو نہیں پہنچا ہے مگر تیری عنایت سے، کوئی بھی نجات نہیں پایا ہے مگر تیری رحمت کے زیر سایہ اور کوئی بھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکا ہے مگر تیری عنایتوں کے زیر سایہ ۔

« مِنْ إینٍ لِیَ الخِیرُ یا رَبِّ وَ لا یُوجَدُ إلا مِنْ عِندِك ؛ اے میرے پالنے والے مجھے کہاں سے خیر و بھلائی مل سکتی ہے جب کہ وہ تیرے سوا کہیں موجود ہی نہیں ہے ۔ » یعنی خیر و نیکوں کا مرکز و منبع تیری ذات گرامی ہے ، تیرے سوا کسی پاس بھی خیر و نیکی موجود نہیں  اور جس کے پاس بھی تھوڑا بہت ہے وہ سب کا سب تیرا دیا ہوا اور تیرا عطا کردہ ہے ، تو خدایا ! میں تجھے چھوڑ کر اور ترے در سے ہٹ کر کہاں سے خیر فراھم کروں اور کہاں سے خیر لاوں ! ؟

« وَ مِنْ إینٍ لِیَ النِجاهُ یا رَبّی وَ لا تُستَطاعُ إلا بِكْ ؛ کہاں سے نجات مل سکے گی جبکہ اس پر تیرے سوا کسی کو قدرت نہیں ۔ » یعنی نہ یہ قدرت ہمارے پاس ہے اور نہ ہی دوسروں کے پاس ہے ، اگر کسی نے خطا کی ، گناہ انجام دیا تو اس گناہ سے نجات کا راستہ نہ خود گناہگار کے پاس ہے اور نہ ہی دوسروں کے پاس بلکہ خدایا فقط و فقط تیری ہی ذات ہمیں اس مشکل گھڑی سے نکال سکتی ہے ۔

قران کریم کی ایتیں واضح اور روشن طریقہ سے اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ اس جھان میں جس کے پاس جو بھی ہے وہ سب کا سب خداوند متعال کا عطا کردہ ہے « مَا بِكُمْ مِنْ نِعمَهٍ فَمِنَ الله ؛ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ » (4) اور یہ ایت « وَلا یَحسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا سَبَقُوا ؛ اور خبردار کافروں کو یہ خیال نہ ہو کہ وہ آگے بڑھ گئے . » (5) نیز اس ایت کریمہ میں ارشاد ہوا ہے « وَ مَا أنْتُمْ بِمُعجِزینَ فِی الأرض وَ لاَ فِي السَّمَاءِ ؛ اور تم زمین یا آسمان میں اسے عاجز نہیں کرسکتے .» ان تمام ایات کا فقط و فقط ایک ہی پیغام ہے کہ ساری دنیا اس کے خدائے وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت میں ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم، سورہ ابراھیم ، ایت ۴۶
۲: قران کریم، سورہ  نحل ، ایت ۵۳
۳: قران کریم، سورہ انفال ، ایت ۵۹

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 73