قرآن و حدیث
خلاصہ: اس مضمون میں اصول کافی کی آٹھویں روایت کا ترجمہ بیان ہو رہا ہے، جس میں بنی اسرائیل کے ایک عابد کا واقعہ بتایا جارہا ہے جسے اللہ تعالی نے اس کی عقل کے مطابق ثواب دینے کی خبر ایک فرشتہ کو دی۔
خلاصہ: اصول کافی کی نویں روایت میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عقل کو جزا کا معیار قرار دیا ہے۔ اس روایت کو مکمل طور پر بیان کرنے کے بعد اس کے متعلق چند نکات کو بیان کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: اصول کافی کی ساتویں روایت میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ قیامت کے دن حساب میں لوگوں کے اعمال میں جو باریک بینی کی جائے، اس کا معیار عقل کی مقدار ہے۔
خلاصہ: اصول کافی کی پانچویں حدیث کی تشریح بیان کی جارہی ہے جس میں کمزور حبداروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے جواب دیا۔
خلاصہ: اصول کافی کی چوتھی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کا فرمان بیان کیا جارہا ہے جو ہر شخص کے دوست اور دشمن کے بارے میں ہے۔
خلاصہ: اصول کافی کی تیسری حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ عقل کا کام کیا ہے اور جو عقل کی شبیہ ہے اور عقل نہیں ہے، وہ کیا ہے۔
خلاصہ: اصول کافی کی پہلی روایت عقل کی خلقت کے بارے میں ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا، اس مضمون میں روایت کے ترجمہ کے بعد چند، روایت سے چند ماخوذہ نکات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: اللہ تعالیٰ کا حق اس قدر زیادہ ہے کہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا نہیں کرسکتے جبکہ کوشش کرنا بھی اس کے حق کا ایک حصہ ہے تو صرف اسی کوشش کرپانے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔
خلاصہ: اللہ تعالی کی رحمت دو طرح کی ہے: رحمت رحمانیہ اور رحمت رحیمیہ، رحمت رحمانیہ عام ہے اور مومن و کافر کو شامل ہوتی ہے، لیکن رحمت رحیمیہ خاص ہے جو مومنین کو شامل ہوتی ہے۔
خلاصہ: اللہ تعالی نے انسان کو اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ ان نعمتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا، حضرت علی (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کے ابتدائی فقرے میں، اس بارے میں جو ارشاد فرمایا ہے وہی بات ہے جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں دو مرتبہ اس سلسلہ میں ارشاد فرمائی ہے۔