عقل کی خلقت اور عقل سے خطاب

Wed, 10/03/2018 - 17:04

خلاصہ: اصول کافی کی پہلی روایت عقل کی خلقت کے بارے میں ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا، اس مضمون میں روایت کے ترجمہ کے بعد چند، روایت سے چند ماخوذہ نکات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو خلق کیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محمد ابن مسلم نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے: "لَمّا خَلَقَ اللّهُ الْعَقْلَ اسْتَنْطَقَهُ ثُمّ قَالَ لَهُ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمّ قَالَ لَهُ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ ثُمّ قَالَ وَ عِزّتِي وَ جَلَالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقاً هُوَ أَحَبّ إِلَيّ مِنْكَ وَ لَا أَكْمَلْتُكَ إِلّا فِيمَنْ أُحِبّ أَمَا إِنّي إِيّاكَ آمُرُ وَ إِيّاكَ أَنْهَى وَ إِيّاكَ أُعَاقِبُ وَ إِيّاكَ أُثِيبُ‏"،  "جب اللہ نے عقل کو خلق کیا تو اُسے قوتِ گویائی دے کر فرمایا: آگے آؤ، وہ آگے آئی، پھر فرمایا: پیچھے ہٹ جاؤ، وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر فرمایا: اپنی عزت و جلال کی قسم، میں نے تم سے زیادہ محبوب کوئی چیز خلق نہیں کی، اور میں تم کو صرف اس شخص میں مکمل کروں گا جس سے محبت کروں، آگاہ رہو میں صرف تمہیں حکم کروں گا اور صرف تمہیں منع کروں گا اور صرف تمہیں عذاب کروں گا اور صرف تمہیں ثواب دوں گا"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۰، ح ۱]
اس حدیث سے چند ماخوذہ نکات:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے عقل کو خلق کرنے کے بعد اُسے قوتِ گویائی عطا فرمائی۔
۲۔ اسے دو طرح کے حکم دیئے: آگے آنے کا اور پیچھے ہٹ جانے کا۔
۳۔ جہاں عقل کو آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ہو وہاں آگے بڑھے اور جہاں پیچھے ہٹنے کا حکم ہو وہاں پیچھے ہٹ جائے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب مخلوق عقل ہے اور اس سے زیادہ محبوب چیز، اللہ تعالیٰ نے خلق ہی نہیں کی۔
۵۔ پروردگار متعال نے عقل کو اپنی محبت کا اظہار کرنے سے پہلے دو قسمیں کھائیں، اپنی عزت کی قسم اور اپنے جلال کی قسم۔
۶۔ اللہ تعالیٰ عقل کو صرف اسی شخص میں مکمل کرتا ہے جس سے محبت کرے۔ لہذا عقل کے مکمل ہونے کا دارو مدار محبت پر ہے۔
۷۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دو محبوبوں کا تذکرہ ہوا ہے: عقل اور جس شخص میں عقل کو اللہ تعالیٰ مکمل کردے، یہ دونوں اللہ کے محبوب ہیں۔
۸۔ دو خبریں دینے سے پہلے تاکید کی ہے: سب سے زیادہ محبوب مخلوق ہونے کی خبر دینے سے پہلے اپنی عزت و جلال کی قسم کھائی، اور امر و نہی اور عقاب و ثواب کی خبر دینے سے پہلے لفظ "اما" ذکر کیا جس کے معنی ہیں: آگاہ رہو، جان لو۔
۹۔ امر و نہی اور ذمہ داری کا دار و مدار عقل پر ہے۔
۱۰۔ لفظ "ایاک" کے معنی ہیں: "صرف تمہیں"۔ یہ لفظ اس حدیث میں چار چیزوں سے پہلے آیا ہے: امر، نہی، عقاب اور ثواب سے پہلے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ذمہ داری سونپے گا عقل کو ہی سونپے گا اور اس کا جو بدلہ دے گا وہ عقل کو ہی دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)، مطبوعہ الاسلامیہ]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39