خلاصہ: اصول کافی کی ساتویں روایت میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ قیامت کے دن حساب میں لوگوں کے اعمال میں جو باریک بینی کی جائے، اس کا معیار عقل کی مقدار ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابوجارود نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "إِنّمَا يُدَاقّ اللّهُ الْعِبَادَ فِي الْحِسَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ مَا آتَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ فِي الدّنْيَا"، "اللہ قیامت کے دن بندوں کے حساب میں باریک بینی اتنی کرے گا جتنی انہیں عقل دنیا میں دی ہے"۔ "۔ [الکافی، ج1، ص11، ح7]
اس حدیث سے متعلق چند نکات:
۱۔ قیامت کے دن بندوں کا حساب و کتاب، باریک بینی سے کیا جائے گا۔
۲۔ اس باریک بینی کا مقدار، انسان کی وہ عقل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں دی ہے۔
۳۔ دنیا میں لوگوں کی عقلوں کی مقدار مختلف ہے، لہذا قیامت کے دن بھی بعض لوگوں کے حساب و کتاب میں زیادہ باریک بینی کی جائے گی اور بعض لوگوں کے حساب و کتاب میں کم باریک بینی کی جائے گی۔
۴۔ عقل سے اتنا ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جتنا اسے استعمال کیا جائے۔
۵۔ مادی نعمتوں کے الٹ، عقل کو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے بڑھتی ہے، جبکہ مادی نعمتیں استعمال کرنے سے کم ہوجاتی ہیں۔
۴۔ انسان علم حاصل کرنے کے ذریعے اپنی عقل کے سرمایہ کو بڑھا سکتا ہے۔ جو شخص قرآن کریم، نہج البلاغہ اور احادیث کو حفظ کرتا ہے، وہ اپنی عقل سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
۵۔ بعض ایسے حرام کام ہیں جو براہ راست عقل کو زائل کرتے ہیں، جیسے شراب خواری۔ شرابخوار سے آنا جانا بھی بند کردینا چاہیے، حتی کہا گیا ہے کہ شرابخوار کو رشتہ نہ دیں۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)، مطبوعہ الاسلامیہ]
Add new comment