خلاصہ: اصول کافی کی نویں روایت میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عقل کو جزا کا معیار قرار دیا ہے۔ اس روایت کو مکمل طور پر بیان کرنے کے بعد اس کے متعلق چند نکات کو بیان کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سکونی نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: "إِذَا بَلَغَكُمْ عَنْ رَجُلٍ حُسْنُ حَالٍ فَانْظُرُوا فِي حُسْنِ عَقْلِهِ فَإِنّمَا يُجَازَى بِعَقْلِهِ"، "جب کسی آدمی کی اچھی حالت (مثلاً اس کے زیادہ نماز روزوں کی خبر) تمہیں ملے تو اس کی عقل کے اچھے ہونے کو دیکھو کیونکہ اپنی عقل جتنی جزا پائے گا"۔ [الکافی، ج1، ص12، ح9]
اس روایت کے متعلق چند نکات:
۱۔ صرف ظاہر کو نہیں دیکھنا چاہیے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آدمی ظاہری طور پر بہت عبادت کرتا ہو، لیکن اس کی عبادت اس کی عقل کی بنیاد پر نہ ہو۔
۲۔ جزا کیونکہ عقل کے مطابق ہے تو عقل کے اچھے ہونے کو دیکھنا چاہیے نہ کہ عبادت کے اچھے ہونے کو۔
۳۔ہمیں چاہیے کہ اپنی عقل کو بلند کریں تاکہ اعمال کی جزا بھی اسی عقل کے مطابق ملے۔
۴۔ حُسنِ حال کا لفظ اکثر وہاں پر استعمال ہوتا ہے جہاں کسی شخص کی عبادت، تعلّقات اور احسان، لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرے، اور اس کے اعمال کی کثرت کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں، لوگ حسرت کی وجہ سے انگشت بہ دنداں ہوجاتے ہیں کہ وہ عبادت اور نیکیوں میں کتنا آگے آگے ہے۔ مگر اِس حدیث سے یہ درس ملتا ہے کہ اس کی عبادت کی کثرت اور حُسنِ حال پر تعجب نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے حُسنِ عقل کی طرف توجہ کی جائے۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)، مطبوعہ الاسلامیہ]
Add new comment