عثمانی فرقہ؛اسلام کا ایک سیاسی-مذہبی فرقہ تھا جو پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں ابھرا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد ، صحابہ میں سے کچھ نے خلافت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی مخالفت کی اسی وجہ سے یہ صحابہ بہت ساری جنگوں اور خون خرابے کا باعث بنے، چنانچہ ابتدائے اسلام کی تبدیلیاں کچھ اس طرح آگے بڑھتی رہیں کہ امامت کی حقیقت آہستہ آہستہ عام لوگوں سے پوشیدہ ہوتی گئی۔بلاشبہ ، عثمانی فرقے نے فکری اور سیاسی طور پر اسلامی معاشرے میں بڑا ہی حسّاس کردار ادا کیا ہے ، جس کی وضاحت کے لیے یہ مضمون ایک کوشش بھر ہے۔
اگر ہم سن ۳۶ ہجری میں عالم اسلام کے سب سے اہم مراکز کی ایک تصویر اپنے ذہن میں تیار کریں تو ہم دیکھیں گے کہ کوفہ اور مصر کے علاوہ بقیہ دیگر خطّےحضرت امیر (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں ہوئے جس کی وجہ سےایسے فسادات پھوٹ پڑے جن کے آثار ابھی بھی باقی ہیں، اگرچہ آگے چل کرمصر نے بھی حضرت امیر (علیہ السلام) کی حمایت جاری نہ رکھی ساتھ ہی عثمانی بھی نہیں بنا ، جبکہ یہ کبھی بھی حضرت امیر (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے ساتھ کوفے جیسا وفادار نہیں رہا،مدینے نے زیادہ ترسکوت سے کام لیا اور عبد اللہ ابن عمر ، سعد بن ابی وقاص ، محمد بن مسلمہ اور دیگر افراد نے خود کو خانہ نشین کرلیا، ان اہم افراد کی خاموشی نے حضرت امیر (علیہ السلام) کی حکومت پر مہلک ضربیں لگائیں، عبداللہ ابن عمر نے علی (علیہ السلام) کے عہد کو فتنہ قرار دیا اور خلفائےراشدین کی فہرست میں علی (علیہ السلام) کا ذکر تک نہیں کیا۔ ([1])
مکہ اور بصرہ، عائشہ اور زبیریوں کے ساتھ ہولیے اگرچہ انھوں نے امویوں کے ساتھ بھی اتحاد نہیں کیا ، پھر بھی انھوں نے ایک ایسی جنگ چھیڑ دی جس کے بارےمیں علمائے اسلام کو برسوں تک معلوم نہیں ہوپایا کہ اس تنازعے کے دونوں فریقوں کے بارے میں کونسا حکم جاری ہوگا، ([2] ) انھوں نے اپنے آپ کو حضرت امیر (علیہ السلام) کی حکمرانی کے خلاف سمجھا اور اپنی نظموں اور اشعارمیں انھوں نے«علی دین عثمان» کے لقب کا تذکرہ کیا،اس تاریخ کے بعدسے ، عثمان کی مظلومیت کے حامی اور حضرت علی (علیہ السلام) کی حکومت کے مخالفین کو« عثمانی» کے نام سے موسوم کیا گیا، معاویہ نے بھی خود کو عثمانی خیمے میں رکھا اور شامیوں کو حضرت امیر (علیہ السلام) کے ساتھ لڑنے پر مجبور کیا۔
عثمانیوں نے ، سن 41 ہجری کے بعد ، جسے «عام الجماعہ» کہا جاتا ہے ، حضرت امیر (علیہ السلام) اور علویوں کے خلاف اپنے تبلیغی کام کا آغاز کیا اور حضرت امیر (علیہ السلام) پر سبّ و شتم اور لعنت کرنا شروع کردی۔ اس طرح اسلامی وحدت کو گہری مذہبی و سیاسی منافرتوں میں بدل دیا،اگرچہ بعد میں حضرت امیر (علیہ السلام) پر لعنت کو عمر بن عبد العزیز نے ممنوع قرار دے دیا تھا ، لیکن عثمانی اپنے ہی راستے پر چلتے رہے اور انھوں نے حضرت امیر (علیہ السلام) کو مسلمان خلیفہ کے طور پر قبول نہیں کیا۔
عباسی دور کے ساتھ ہی علویوں کو بڑے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس دوران جوایک اہم نتیجہ سامنے آیا وہ حضرت امیر (علیہ السلام) کی طرف زیادہ تر مسلمانوں کے خیالات میں بتدریج بدلاؤ تھا۔مامون نے، جو بغداد کے معتزلیوں سے متاثر تھا ، معاویہ کے فضائل بیان کرنے سے منع کیا اور حضرت امیر (علیہ السلام) کے فضائل کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ احمد بن حنبل کے استاد ، عبد اللہ ابن مبارک نے حضرت امیر (علیہ السلام) کو خلفائے راشدین میں سے ایک کے طور پر قبول کرلیا اور احمد ابن حنبل نے اپنی تیس سالہ جدو جہد میں ، خلفائے راشدین کی فہرست سے حضرت امیر (علیہ السلام) کو خارج کرنا جائز نہیں مانا، ([3])اس طرح گردش ایّام کا یہ موڑ حضرت امیر (علیہ السلام) کے حق میں تھا۔
تیسری صدی ہجری میں ، عثمانیوں نے عثمان کی برتری پر کم توجہ دی کیونکہ اس صدی کا ایک اہم مسئلہ حضرت امیر (علیہ السلام) پر شیخین کی برتری کا تھا۔ جاحظ کی کتاب «العثمانیہ» اس نقطۂ نظر کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں ، مناقب ابوبکر کی بنیادوں پرابوبکر کو افضل ِصحابہ سمجھا گیا ہے۔ بغداد کے معتزلیوں میں سے ایک، ابو جعفر اسکافی کی طرف سے جاحظ کی زندگی میں ہی اس کی ردّ لکھ کر اس کتاب کی تردید کردی گئی، اور ابو جعفر اسکافی نے حضرت امیر ((علیہ السلام)) کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے مناقب کی روشنی میں انھیں افضل صحابہ کے طور پر متعارف کرایا۔ جبر و اختیار، سلطان جائر کی طرف نگاہ، سلطان کے خلاف خروج نہ کرنے کا معاملہ، اہل سنت میں مستند احادیث کا مسئلہ، کوفیوں اور ان کی احادیث کے سلسلے میں منفی نظریہ اور راویوں کے جرح و تعدیل جیسے معاملات میں عثمانیوں کا اہل سنت پر گہرا اثر و رسوخ واضح ہے۔ راقم الحروف کا ارادہ ہے کہ ان مسائل کو ایک الگ مضمون میں پیش کرے جس میں اہل سنت پر عثمانی طرز فکر کے اثرات کو ظاہر کیا جائے ۔
اس بحث کو اٹھانے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ عثمانیوں سے علمائے اہل سنت کے متأثر ہونےکی بات واضح و روشن ہونے کے باوجود ملل و نحل لکھنے والوں میں سے «ناشی اکبر» کی کتاب «مسائل الامامہ» کے علاوہ کسی نے بھی اس موضوع کا ذکر نہیں کیا ہے اور عثمانیوں کو صدر اسلام میں ظاہر ہونے والے ایک فرقے کے طور پر متعارف نہیں کروایا ہے۔ عثمانیوں اور ان کے بزرگوں کی پہچان اور اہل سنت پر ان کے اثرات کے بارے میں ہمارا علم، شیعہ اور سنی مذہبی اختلافات سے بچانے اور ان دونوں کو قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کرنے میں معاون ثابت ہوگا اور اس طرح تاریخ میں کیےگئے اہم مذہبی فیصلوں کی حقیقت پر سے نقاب ہٹائے گا اور ہمیں اسلامی وحدت اور اتحاد کی طرف لے جائے گا۔
عثمانی([4])
یہ گروہ ایک ایسے عقیدے کا پیروکار ہے جو اسی زمانے اور انہیں مسائل کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے خوارج اور شیعہ ظہور میں آئے تھے لیکن اس کی عمر چوتھی صدی ہجری سے زیادہ تجاوز نہ کر سکی۔ تاریخ ِعثمانیہ کو چار مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1. عثمان سے وفاداری:
یہ موقف عثمان کے قتل کے جواب میں اختیار کیاگیا ،کیا شورش بپاکرنے والوں کا اقدام صحیح تھا؟ جنھوں نے شورش بپاکرنے والوں کے اقدامات کو قبول نہیں کیا وہ عثمانی کہلائے، ان کی نظر میں، عثمان برحق حاکم تھے جنہیں قتل کرنا ایک غلط قدم تھا، "خدا کی قسم عثمان مظلومانہ قتل ہوئے" ([5])،انھوں نے چیخ و پکار مچائی کہ"عثمان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور شوریٰ کے ذریعہ نئے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے"([6]) جبکہ خلافت کے معاملے میں علی ((علیہ السلام)) کے دعوے کا،عثمان کے قتل میں شریک ہونے یا ان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی وجہ سے ، امت سے مشورہ کیے بغیر انکار کردیا۔([7])
اس کے برخلاف ، شورش بپا کرنے والوں نے استدلال کیا کہ عثمان نے شریعت میں بدعات ایجاد کی ہیں(احداث) اس وجہ سے امامت کا مقام کھو دیا ہےاور مظلوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ظالم کی حیثیت سے ان کی موت ہوئی، تمام شورش بپا کرنے والوں نے علی ((علیہ السلام)) کی جانشینی قبول کرلی مگر بعد میں خارجیوں کا خیال تھا کہ وہ بھی اپنا مقام گنوا بیٹھے۔
ابتدائی دنوں میں، ممکنہ طور پر سبھی غیر شورشی عثمانی تھے،ساتھ ہی تمام مسلمانوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ عثمان سے وفاداری کا راستہ انتخاب کریں یا شورش بپا کرنےوالوں (خوارج یا شیعہ) کے نظریات کو قبول کرلیں، تاہم ، یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی تعداد نے غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی([8]) ، لیکن عثمان سے وفاداری تقریباً سات سو عیسوی [ستر ہجری] تک اسلامی دنیا میں مخفیانہ طور پرموجود رہی([9])،یہی وہ وقت تھا جب مرجئہ ظاہر ہوئےجنکا ماننا تھا کہ مورد اختلاف شخصیات کے حق اور باطل پر ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور حق و باطل کا حکم معلق ہے، عثمان کے ساتھ وفاداری کے مرکز کی شاخ عراق بھی تھی اسی لیے بصرہ کے لوگوں نے جنگ جمل میں علی ((علیہ السلام)) کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور جنگ کے مفرور شام کی طرف فرار ہوگئے([10])۔
کچھ کوفی، ([11])اور بصرے کے کچھ لوگ، عثمانی ہونے کی وجہ سے علی (علیہ السلام) کی فتح کے بعد عراق چھوڑ کر جزیرۃ العرب میں آباد ہوگئے، ([12])اس کے علاوہ جب امام حسن (علیہ السلام) اپنے والد کے جانشین ہوئے تو بصرےکے اکثرلوگ ، جو پہلے اپنے عثمانی خیالات و نظریات کو چھپا رہے تھے، معاویہ کے ساتھ جاملے۔([13])دوسری خانہ جنگی میں، بنی امیہ کے حامی؛ بہت سارے عثمانی موجود تھے۔([14])بصرے کے لوگوں کو عام طور پر عثمانیوں کے نام سے جانا جاتا تھا ،«البصرة كلها عثمانية»([15])،جسے کچھ لوگ اس حقیقت کا نتیجہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تین حکمراں من جملہ« حجاج »عثمان اور امویوں سے بہت قریب تھے۔ ([16])
لیکن عثمانی کوفے میں بھی تھے، ([17])کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مصر، جو پہلے علوی تھا، یزید ابن ابی حبیب (متوفی 128ھ / 6-745 ء) یا لیث بن سعد (متوفی 175 ھ / 791ء) کی وجہ سے عثمانیت کی طرف مائل ہوا لیکن اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔ ([18])
یہ کہنا بجا ہے کہ بنی امیہ کے ابتدائی دور میں دیگر مختلف مقامات پر بھی عثمانیوں کی اکثریت تھی، پہلی خانہ جنگی میں ، حجاز اور عراق میں عثمانیوں کی سربراہی طلحہ، زبیر ، اور عائشہ اور شام میں معاویہ کر رہے تھے،حجاز اور شام کی یہ دونوں عثمانی شاخیں عثمان کے ساتھ وفاداری کا جذبہ لیے رہیں اور جب طلحہ اور زبیر قتل ہوگئے تو انھوں نے معاویہ کو اپنے واحد رہنما کے طور پر تسلیم کرلیا لیکن زیادہ دیر تک وہ متحد نہیں رہے، معاویہ کی وفات کے بعد ، عبداللہ ابن زبیر نے یزید ابن معاویہ کی جانشینی کی مخالفت کی اور جب یزید کی وفات ہوئی تو خلافت کا دعوی کیا،بنی امیہ کے حامیوں نے بھی زبیریوں کی طرح عثمان کے ساتھ اپنی وفاداری پر اصرار کیا لیکن اس مخفی نظریہ کو قبول کرنا اس وقت کی سیاست کے اہم معاہدے کی ضمانت میں شامل نہ رہا، جب کتب و آثار میں سفیانی دور([19] ) (معاویہ کا دور) اور دوسری خانہ جنگی کے دوران عثمانیوں کی بات آتی ہے تو وہ عام طور پر اموی جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔([20])
امویوں کو عثمان سے رشتہ داری کا امتیاز حاصل تھا اور زیادہ تر مسلمانوں نے معاویہ کو ہی نہیں بلکہ یزید کو بھی عثمان کے جانشین کے طور پرتسلیم کرلیا تھا۔ اور علی الاعلان کہتے تھے کہ وہ عثمان ، معاویہ ، اور یزید کے مذہب پر ہیں۔ ([21])وہ حضرت علی (علیہ السلام) یا خوارج کی، جن کا ان سے دلبستگی کا معیار الگ تھا، توہین کرتے تھے۔([22])ایک نوجوان جس نے معاویہ کے مذہب کو ماننے سے انکارکردیا اورمحکمہ (خوارج) پر بھی لعنت نہ کی، اس کو پھانسی دے دی گئی،([23])جیسا کہ حجر ابن عدی کوفی کو، جنھوں علی (علیہ السلام) کی حمایت میں معاویہ پر کھلے عام لعنت بھیجی تھی ، پھانسی دے دی گئی۔([24]) اموی حکومت کے سرگرم حامی عثمانی شیعہ، معاویہ کے شیعہ یا اموی شیعہ کہلاتے تھے؛ ([25])جیسے بسر بن ابی ارطاة، معاویہ بن حديج، ([26])مالك بن مسمع، حسان بن ثابت، كعب بن مالك، نعمان بن بشير جیسے افراد۔([27])جولیس ویلہاؤزن (متوفی 1918) کے خیال کے برخلاف([28])عثمانی مذہب کے لوگ مختار ثقفی کے دور میں بھی امویوں کے حامی تھے۔
2. تین خلفاء کا نظریہ:
اموی،مروانی دور ِ حکومت میں بھی عثمان کے ساتھ اپنے رشتے اور قرابت جیسے مسائل پر زور دیتے تھے لیکن اب زیادہ تر عراقی مورخین اموی حامیوں کو عثمانی یا عثمان کے شیعہ نہیں مانتے اور انہیں خلفاء کے(دین) کا تابع ِفرمان نہیں سمجھتے۔درباری قصیدہ خوانوں سے قطع نظر تمام اہم دستاویزوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اموی اور ان کے ہمنوا بچتے رہنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تلاش کرتے رہتے تھے اور اسی سے چمٹے رہتے تھے ، جو کہ انھیں بہت کم اس دوران میسّر آتا تھا، اس کے بجائے اس دوران کتب و تاریخ کے مطابق عثمانیوں کو اصحاب حدیث کے بدلتے اور قابل قبول چہرے کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
عثمانی اصحاب حدیث ، اپنے اسلاف ہی کی طرح ، علی (علیہ السلام) کی جانب سے خلافت کی دعویداری کو مسترد تو کرتے تھے لیکن اپنے اسلاف کے برخلاف وہ صرف گزشتہ خلفاءسے سروکار رکھے ہوئے تھے اور موجودہ وقت کے خلفاء کے بارے میں کوئی گفتگونہیں کرتے تھے۔اصحاب حدیث اپنے عقیدے کا اظہار اس طرح کیا کرتے اور بیان کیا کرتے تھے کہ خلفائے راشدین بس تین ہی ہیں؛یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان،جب زُهَری سے علی (علیہ السلام) اور عثمان کے نَسَبی امتیازات کے بارے میں پوچھا گیا تو زُهَری نےکہا :"خون، خون، عثمان زیادہ قابل ہے، علی (علیہ السلام) نے مسلمانوں سے جنگ کی، لہذا وہ کوئی ایسے خلیفہ یا امام نہیں ہوسکتے جنھیں اپنے لیے نمونۂ عمل بنایا جاسکے۔"([29])، یا جیسے احمد بن حنبل اور بغداد کے دیگراصحاب حدیث کہتے تھے: "علی (علیہ السلام) کی خلافت فتنہ تھی"۔([30])
عبد اللہ ابن عمر کا ایک مشہور جملہ نقل کیا گیا ہے کہ: "جب پیغمبر حیات تھےاور ان کے ساتھی بے شمار تو ہم ابوبکر ، عمر اور عثمان کو شمار کرلیا کرتے تھے ، اور خاموش ہوجایا کرتے تھے۔" ([31])ہشام بن حسن بصری (متوفی 146 ہجری / 763 ء) نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کو اسی طرح شمار کیا اور پھر خاموش رہا۔ ایسی ہی بات کوفے میں سفیان ثوری اور مدینے میں ملک ابن انس کے بارے میں بھی کہی گئی ہے۔([32]) بظاہر اسماعیل بن داؤد الجوزی نے تین خلفاء کا نظریہ مالک سے ہی سیکھا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے اسماعیل نے ہی بغداد میں مشہور کیا تھا۔([33]) اصحاب حدیث کے بہت سے علماء و محققین عثمانی مذہب کے حامی و پیروکے طور پر جانے جاتے ہیں ہیں جیسے، حمّاد بن زید ([34]) اسکے علاوہ دوسرے افراد جو 151 ھ سے 186 ھ کے درمیان بصرے میں فوت ہوئے جیسے، سیف ابن عمر؛ مشہور جھوٹا مورخ (وفات 180ھ - سنہ 796ء) اور کوفے میں زندگی بسر کرنے والے دیگر افراد([35])، اور ساتھ ہی[یحییٰ] بن معین (233 ھ / 8-847 ء) ، ابو خثیمہ (متوفی 234 ھ / ۸۴۸ ء) اور احمد بن حنبل جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ بغداد میں گزارا۔([36])
انھوں نے اپنی اپنی کتب میں بڑے پیمانے پر ایسی ایسی احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں ابو بکر ، عمر اور عثمان کو حقیقی خلیفہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ایسے ائمہ کے طور پرکہ جن کی پیروی کی جائے اور جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد سارے لوگوں سے افضل ہیں جبکہ علی (علیہ السلام) کے بارے میں معنی خیز خاموشی نظر آتی ہے۔([37]) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب حدیث یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے کہ کسی رہبر اور قائد کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کا کام پیغمبرکے دور اور پہلے تین خلفاء کی خلافت اورعثمان کے قتل کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔([38]) بصری روایت میں عثمان کی موت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے: "آج نبوت و خلافت کو امت کے درمیان سے اٹھا لیا گیا ، اور بادشاہت اور ظلم کا ظہور ہوا"۔([39])
اس وقت سے اسلامی معاشرے کے تمام قائدین صرف حکومت کے سربراہ تھے اور معاشرے میں دینی تعلیمات پھیل چکی تھیں اور معاشرے کو ساتھ رکھنا (اجماع امت)اپنے قائد کی اخلاقی ایمانداری کی ضمانت دینے سے کہیں زیادہ ضروری تھا۔ حکمرانوں کا وجود شریعت کی تائید اور امت کی حفاظت کے لیے ضروری تھا، انسان کو خانہ جنگی سے بچنا چاہیے، چاہے موت کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ وہ موت کو گلے لگا لے لیکن خانہ جنگی میں شامل نہ ہو اور خود کو خانہ جنگی میں شامل نہ ہونے دے۔ ایک مشہور حدیث میں کہا گیا ہے: "خدا کا مقتول بندہ بنو ، قاتل نہیں۔"جب امویوں کے آخری دور کے بصریوں کو عثمانی کہاجاتا ہے ، تو اس کا مطلب امویوں کے حامیوں کی جانب اشارہ نہیں ہے بلکہ اس سے ان اصحاب حدیث کی سمت اشارہ ہے جو اس حدیث "كن عبدالله المقتول"کا حوالہ دیتے ہوئے ، جنگ سے بچنے پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ([40])
دوسری جانب متعدد اصحاب حدیث عثمانی مذہب والے تھے جو ان لوگوں کو اپنی صفوں میں سمجھتے ہیں: عبد اللہ ابن عمر، سعد بن ابی وقاص، محمد ابن مسلمہ، کعب بن مالک (دوسرے مقامات پر انھیں، امویوں کے حامی کے معنی میں عثمانی سمجھا گیا ہے۔) ([41])مزید دوسرے لوگ بھی تھے جو پہلی خانہ جنگی میں مبینہ طور پر غیرجانبداری اختیار کیے ہوئے تھے۔([42])
3. چار خلفاء پر اتفاق رائے (تربیع) سے متعلق نظریات
عثمانی مذہب کے اصحاب حدیث نے اپنا موقف بدلا اور آخر کار چار خلفاء کے نظریئے کے پھیل جانے کے بعد غائب سےہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ نوح ابن ابی مریم (متوفی 173 ھ / 90-789 ء)اور ابن مبارک (متوفی 181 ھ / 797 ء) نے پہلے ہی چار خلفاء کے نظریئے کو قبول کرلیا تھا، تاہم ، عثمانی مذہب کےتین خلفاء والا نظریہ بھی ابن مبارک سے ہی منسوب ہے۔ ([43])
بہر حال ، تیسری سے نویں صدی ہجری کے درمیان عراق میں چار خلفاء کا نظریہ (تربیع)عملی طور پر چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ ([44]) صرف بغداد میں ہی اس نظریئے کو قوی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس مخالفت میں اتفاق رائے کا فقدان تھا([45])اور آخر کار جب بغداد میں ہی احمد ابن حنبل نے بھی اس نظریئے کو قبول کرلیا تو مخالفت کا زور پوری طرح سے ٹوٹ گیا۔ ([46]) لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ احمد ابن حنبل کے سبھی پیروکاروں نے ان کی بات مان لی ہوکیونکہ حشویہ اور نابتہ جیسے کچھ تند مزاج اور انتہا پسند اصحاب حدیث، جو معاویہ اور یزید کا بہت زیادہ احترام کرتےتھے ، علی (علیہ السلام)کو بالکل بھی برحق خلیفہ نہیں مان سکتے تھے ([47])اور یہ بات خاص طور پر اس لیے تھی کہ حنبلی، معاویہ کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے اسی لیے چوتھی سے دسویں صدی ہجری کے درمیان"مقدسی"نےانھیں نجات پیدا کرنے والی اکثریت کا حصہ قرار نہیں دیا۔([48]) ان باتوں اور حزب اختلاف کے دیگر مراکز (خاص طور پر شام میں) کے باوجود یہ واضح ہے کہ مسلمانوں نے عثمان اور علی(علیہ السلام) کو جلد ہی خلفائے راشدین کے طور پر قبول کرلیا ، سوائے ان افراد کے جو خوارج میں سے تھے یا پھر شیعہ رہے۔ اہل سنت نے [بعد میں اس موقف کو] پچھلے خلفا ء کے اعتبار سے "اسلام کے ایک مخفی نظریئے" کے طور پر پیش کیا۔
اعتدال پسند شیعہ [متشیّع اہل سنت]، جو زیادہ تر کوفی تھے اور عثمان کو تیسرا خلیفہ ماننے پر راضی ہوگئے تھے ، وہ اس حد تک جانے کے لیے راضی نہیں تھے کہ عثمان کو علی (علیہ السلام) سے افضل بھی سمجھنے لگیں؛ کیونکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خلیفہ کواپنے وقت کا افضل یعنی سب سے برترشخص ہونا چاہیے،لہذا افضلیت کے لحاظ سے ، ان کے خلفاء کی ترتیب ابوبکر ، عمر اور علی سے شروع ہوتی تھی اور عثمان کو آخر میں شامل کیا جاتا تھا۔ ([49]) اس طرح اب عثمانی وہ تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ عثمان علی(علیہ السلام) سے افضل ہیں اور اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہر ایک خلیفہ اپنے وقت کا افضل شخص تھا اور اس طرح جانشینی کی ترتیب کو قابلیت و افضلیت کے ساتھ مساوی کردیا گیا۔ ([50])شاید انہی بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے مصنف"ناشی اکبر" نےلکھا کہ عثمانی ،مرجئہ کے ساتھ جاملے؛ ناشی اکبر کے بقول: "مرجئہ وہ لوگ ہیں جو علی(علیہ السلام) یا امویوں میں سے کسی ایک کو بھی ترجیح دیئے بغیر علی (علیہ السلام) کو چوتھے خلیفہ کے طور پر قبول کرتے ہیں" لیکن ناشی اکبر کے اس بیان کی مشکل یہ ہے کہ اس سے تو سبھی اہل سنت عثمانی نظر آئیں گے۔
دوسری جانب کچھ ایسے بھی اعتدال پسند گروہ تھے جو علی (علیہ السلام) کو تمام خلفاء سے برتر سمجھتے تھے یہاں تک کہ ابوبکر سے بھی افضل مانتے تھے لیکن اس کے باوجود ابوبکر کی خلافت کو بھی قبول کرتے تھے۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ کہ بعض اوقات مفضول شخص خلافت کے لیے افضل سےزیادہ موزوں ہوتا ہے۔([51]) ایسے افراد کے نزدیک عثمانی وہ تھا جو ابوبکر کی افضلیت و برتری کا دفاع کرے۔ اس کی ایک مثال "جاحظ" کا رسالہ"عثمانیہ" ہے۔
جاحظ کی اس کتاب کااسكافی معتزلی زيدی([52]) (م 24 ھ/854 ء) اور مسعودی([53]) سمیت کچھ امامی شیعوں نے جواب دیا اور جاحظ کے نظریئے کی رد پیش کی۔([54]) توقع کی جاتی تھی کہ ابوبکر کے حامیوں کو "بکریہ"یا "بوبکریہ"کے نام سے جانا جائے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ نئی اصطلاح کے وضع کرنے کی ضروری نہیں رہ گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جو بھی شخص علی (علیہ السلام) کے بالمقابل پہلے تین خلفاء کی برتری کا اعتراف کرتا تھا اسےعثمانی کہا جاتاتھا؛خواہ وہ ابوبکر اور عمر کو مدّنظر رکھتا ہو یا پھر عثمان کو۔ اس تعریف کے مطابق بھی تمام اہل سنت عثمانی ہیں۔
4. اموی مسلک کے حامی:
جب اہل سنت میں سے عثمانی مذہب کے اصحابِ حدیث منظرنامے سے غائب ہوگئے تو امویوں کی حمایت کی ایک دوسری شکل دوبارہ سامنے آئی۔ سال 324ھ/6-935 ء ، شہر طبریہ [اردن] میں مسعودی کو ایک کتاب، جو ایک عثمانی کی ملکیت میں تھی، ملی جوامویوں کے بارے میں تھی۔([55]) اس کتاب کا نام"كتاب البراهين فی امامة الامويين"تھا ، جس میں بنی امیہ کی امامت کے دعوے کا دفاع کیاگیا تھا۔اس کتاب میں اموی خلفاء کے فضائل کا بیان تھااور اموی سرکردہ افراد عثمان سے لے کرکر مروانِ ثانی تک کا ایک ایک کرکے نام مذکور تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مؤخر الذکر[مروانِ ثانی] نے عبدالرحمٰن اول کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔ 31 ھ / 23-922 ء تک اسپین کے امویوں کی فہرست بھی اسی کتاب میں موجود تھی اور عبدالرحمن ثالث کے نام پراسکا خاتمہ تھا ۔،عبد الرحمٰن ثالث 912ہجری میں برسراقتدار آیا لیکن اس نے 316ہجری میں ہی اپنے لیے خلیفہ کے نام کا انتخاب کرلیا([56])ان متضاد باتوں سے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اموی خلافت کی دوبارہ بحالی کے بارے میں جانے بغیر ہی لکھی گئی تھی۔ ([57])
بہرحال ایک قدیمی فرقے کی حیثیت سے یہ عثمانیوں یاعثمانی شیعوں [شيعة العثمانیہ] کے بارے میں چند باتیں تھیں۔([58]) یہ ایک ایسی جماعت تھی جو ایک سیاسی -مذہبی رہنما کی حمایت میں خود کو اس سے جوڑ کر اپنے آپ کو حق کے راستے پر مانتی تھی۔اب رہی یہ بات کہ کیا اس گروہ کے کچھ خاص قوانین و نظریات بھی تھے؟ تو یہ بات پوری طرح سے واضح نہیں ہے اگرچہ قابل جستجو اور راه تحقیق کے متلاشیوں کو اس طرح کے اشارےملتے ہیں کہ عثمانیوں کے بہت سارے نظریات بغداد کے حشویہ فرقے سے میل کھاتے ہیں جو کہ امویوں کے قابل احترام ہونے کے بارے میں مشہور تھےاور اسی بات کو عثمانیوں کی جانب بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح چوتھی سےدسویں صدی ہجری میں کوفے میں امویوں کے حامی عثمانی مذہب کے لوگوں کے شواہد ملتے ہیں جن کی اپنی ایک مسجد بھی تھی ([59])لیکن یہ وہ آخری نکتہ ہے جو ہم عثمانیوں کے سلسلے میں سنتے ہیں۔ ([60])
…………
مصنفہ: پیٹریشیا کرون / Patricia Crone
مترجم: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
…………
مؤلف کے مآخذ:
مقالے میں مذکور مآخذ کے علاوہ، دیکھیں: ایگناز گولڈزیہر، مطالعات اسلامی، ج2، ص119 کے بعد؛ لامنس، بررسی سلطنت معاویہ اول، خليفہ اموی، پیرس، 19 8(يا مجلہ MfoB، 32 ش2، 19 7م)، ص11، 12، پلٹLe milieu basrien et La formationde Gahiz، پیرس 1953، ص188 کے بعد؛ زہينسر، مأمون کی مذہبی پالیسی كتاب العثمانیہ جاحظ،کی بنیاد پر MW مجلہ میں ، 33 ش 54، 1979م؛ ولیم منٹگمری واٹ ، دوره تكوين تفكر اسلامی، ایڈينبرگ، 1973م، ص75 به بعد و166-167؛ ویلفرڈ میڈلنگ، جانشين حضرت محمّد، كمبريج، 1997۔
- بخاری نے اپنی صحيح میں اور احمد بن حنبل نے اصول السنہ میں عبدالله بن عمر سے نقل کیا ہے:« كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ »؛نبی کریم صلی اللہ علیہ [وآلہ]وسلم کے عہد میں ہم ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے، پھر عمر کو پھر عثمان کو۔ صحيح البخاري في كتاب فضائل أصحاب النبي، باب مناقب عثمان بن عفان (3697/۳۶۹۸) (14/5)، «عقائد ائمہ السلف» کی طرف بھی رجوع فرمائیں۔(تمام حوالے مترجم کی جانب سے نقل کیے گئے ہیں)۔
- مرجئہ کی پیدائش اسی مسئلے سے جڑی ہوئي ہے، قدیم معتزلی بھی نہیں سمجھ پائے کہ کس کا دعوا برحق ہے۔اس سلسلے میں مزید تحقیق فرمائیں۔
- رجوع فرمائیں: مقاله «نقش احمد بن حنبل در تعديل اهل سنت» تحریر: رسول جعفريان، مجله هفت آسمان، ش5۔
- یہ مقاله ترجمہ ہے: UTHMANIYYA,in the Encyclopedia of Islam;new edition,Leiden ,2 ,Vol ۔ 1 ,pp952-954 ،دائرة المعارف کے اس حصےکی مصنفہ پیٹریشیا کرون (متوفی جولائي 2015) ہیں۔، وہ تاریخ اسلام کی ماہر تھیں اور اس شعبے میں ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ 1987 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے اکیڈمک بورڈ کی رکن تھیں اور نیو جرسی میں پرنسٹن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں تحقیق کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ان کی تألیفات میں سے« مکہ اور اسلام کا پھیلاؤ »(انگلینڈ میں شائع) «خلیفة اللہ» «ابتدائی صدیوں میں اسلام کی مذہبی طاقت »(ہینڈر کے ساتھ ، کیمبرج پریس کے تعاون سے)؛ شامل ہیں، مترجم،جناب محمدی مظفر کا اس مضمون کی پروف ریڈینگ اور مفید نکات دینے پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ [اس مقالے کا فارسی ترجمہ استاد محترم حجتالاسلام والمسلمين مهدی فرمانيان نے انجام دیا ہے ،اردو پروف ریڈینگ اور تصحیح و تحقیق نیز مفید نکات سے نوازنے پر حجت الاسلام سیدحسن عباس زیدی دامت برکاتہ کے شکر گزار اور بے حد ممنون ہیں ۔]
- طبری، 3434، 3243۔
- بلاذری نے ابی مخنف کے حوالے سے بتایا ہے کہ طلحہ اور زبیر نے عائشہ سے کہا: "لوگ جانتے ہیں کہ عثمان مظلوم مارے گئے اور ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو شوریٰ کے لیے بلائیں"، مروانی اور مغیرہ ابن سعید لوگوں کو علی علیہ السلام سے لڑنے کے لیے اکسانے میں مشغول تھے (انساب، بلاذری، ج2، ص223و ج3، ص337؛ طبری، 3277)۔
- شيخ مفيد، الجمل، ص97 کے بعد۔
- یہ لوگ تھے: سعد بن ابی وقاص ، جن کا بیٹا عمر ابن سعد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے سامنے آیا ، عبد اللہ ابن عمر ، جس نے حضرت امیر علیہ السلام کی بیعت نہیں کی لیکن بعد میں امویوں کی تائید اور ان کی بیعت کی اور اسامہ بن زید ،ملاحظہ کریں: فرق الشيعة، نوبختی، ص9۔
- مصنفہ کا مطلب یہ ہے کہ مرجئہ کی آمد تک عوام کے سامنے یہ واضح نہیں تھا کہ عالم اسلام کا اس سلسلے میں نظریہ کیا ہے؟کیا حضرت امیر علیہ السلام حق پر ہیں یا شورش بپا کرنے والوں کے اقدامات صحیح نہیں تھے؟ مرجئہ کی آمد کے بعد ، اسک ے حکم کو خدا کے سپرد کردیا گیا ، اور پھر دھیرے دھیرے دوسرے معاملات جیسے ایمان ، گناہ کبیرہ کے مرتکب کا حکم، اور اس جیسے سوالات اٹھائے جانے لگے اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی کہ شورش بپا کرنے والوں کے اقدامات ٹھیک نہیں تھے لیکن انکے یہ اقدامات انہیں ایمان سے خارج نہیں کرتےاور حضرت امیر علیہ السلام کی خلافت بھی قانونی و شرعی تھی اور ان کے مخالفوں کا عمل من جملہ جمل والوں اور معاویہ کا عمل صحیح نہیں تھا اور پھر اس طرح دنیائے اسلام خلافت حضرت امیر علیہ السلام کی جانب مائل ہوئی جبکہ صدر اسلام میں لوگوں کی اکثریت حضرت امیر علیہ السلام کی خلافت کے شرعی و قانونی ہونے کی مخالف تھی۔ اہل سنت میں اس نقطۂ نظر کو اسلام کا غیر حاضر نظریہ کہا گیا ہے۔
- اس سے مراد مروان بن حكم ، سعيد بن عاص اور دیگر اموی تھے جو معاویہ کے ساتھ جاملے تھے۔
- ان میں سے ایک سماک ابن مخرمہ الاسدی ہے ، جس کے نام سے کوفے میں ایک مسجد مشہور تھی۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے حجر بن عدی کے خلاف گواہی دی اوران کی شہادت کا سبب بنا۔ حضرت امیر علیہ السلام نے کبھی بھی اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی اور وہ علاقہ کوفے کے عثمانیوں کا محل اجتماع تھا، شیعوں نے بھی اپنے مولا کی پیروی کرتے ہوئے اس مسجد میں جانےسے گریز کیا ۔(ميراث مكتوب شيعه، ص 254)۔
- بلاذری، انساب، ج 2، ص 297۔
- اغانی، ج12، ص329۔
- بلاذری، انساب، ص156۔
- العقد الفريد، ج6، ص248۔
- الحور العين، ص23۔
- بلاذری، انساب، ج5، ص229۔
- ذهبی، تاريخ الاسلام، ج5، ص184۔ بغية الطلب ، ج4، ص1731 میں مرقوم ہے: "كان اهل مصر ينتقصون عثمان حتّی نشأفيهم ليثبنسعد، فحدثهم بفضائل فكفوا عن ذلك و كان اهل حمص ينتقصون علی بن ابيطالب حتی نشأفيهم اسماعيل بن عياش فحدثهم بفضائله فكفوا عن ذلك." لیث ابن سعد دوسری صدی ہجری کا ایک مشہور فقیہ ہے جس کا مصر میں ایک مستقل مکتب تھا اور کچھ عرصے تک وہ مالک کے مذہب کا سخت مخالف تھا، ملک ابن انس کے ایک خط میں اس سے کہا گیا ہے کہ"تم نے ایسے فتوے دیئے ہیں جو ہمارے نزدیک مناسب نہیں ہیں،لوگ مدینے کے ماتحت اس کے تابع ہیں ... تو پھر اہل مدینے کے عمل کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟..." لیث نے جواب دیا: " بہت سےصحابہ اجتہاد بالرائےکرتے تھے اور مختلف امور میں ان کے درمیان بہت سارےاختلافات تھے ... اب بھی مدینے میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا آپس میں سخت اختلاف ہے جیسے شہاب اور ربیعہوغیرہ۔" یہ دونوں خطوط ابو زہرہ کے ہاتھوں لکھی مالک کی کتاب ،ص96-1 4 میں موجود ہیں، ان میں بھی اسی عثمانی طرز فکر کے ساتھ پہلے کے تین خلفاء کا تو ذکر ہے مگر حضرت امیر علیہ السلام کا نام کہیں بھی نہیں ہے۔
- سفیانی فرقہ، نابتہ فرقہ ہوسکتا ہے ، جو ایک طرح کا انتہا پسند عثمانی فرقہ تھا ، یہ وہی فرقہ ہے جس کو شیعوں نے ناصبی مسلک سے تعبیر کیا ہے۔
- جاحظ، رسالة الحكمين، مجله المشرق، 1958م، ص428، یہ رساله «رساله عمرو بن بحر الجاحظ فی الحكمين و تصويب اميرالمؤمنين علی بن ابيطالب فی فعله» المشرق، ص417 تا ص 482 میں شائع ہوا ہے،عبد السلام محمد ہارون کے توسط سے چار جلدوں میں جمع کردہ جاحظ کے رسالوں میں یہ رسالہ دکھائی نہیں دیتا، عثمانیوں کے بارے میں یہ سب سے اہم مقالوں میں سے ایک ہے۔
- اغانی، ج14، ص321، طبری، ص34 2۔
- بلاذری، فتوح، ص3 8؛ اغانی، ج12، ص321۔
- ابوالاسود دوئلی، ديوان، ص92 به بعد، ش47۔
- طبری، ج2، ص115۔
- بطور مثال طبری، ج2، ص112؛ مسعودی، مروج، ج4، ص352 ياج 3، ص 166 ؛ بلاذری، ص 156۔
- ابن سعد، ج7، ص13 و195۔
- طبری، ص3245؛ اغانی، ج16، ص 28-3 ، 228، 233-234، انھوں نے اور ديگر عثمانيوں نے بہت ہی نامناسب طریقے سے علی علیہ السلام کو اميرالمؤمنین کے لقب سے پکارا ہے؛ مسعودی، مروج، ج4، ص284، 297يا ج3، ص16 9و1623، حتی کہ انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بيعت تک نہیں کی۔
- پادشاهی، ش93۔
- فسوی، معرفه، ج2، ص8 6، اس مقام پر زهری بظاہر عثمان کو بھی خلیفہ کے طور پر قبول نہیں کرتا ۔ زهری کی اهل بيت سے محبت کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں: ميراث مكتوب شيعه در سه قرن نخستين، مؤلف مدرسی، ترجمه قرائی اور جعفريان، ص61۔ (اورمزید مآخذ جن کا نام وہاں آیا ہے)۔
- ناشی اكبر، ص113۔ ناشی اكبر نے مسائل الامامة میں(11-115) امامت کے بارے میں اصحاب حديث کے نظریات کو لکھتے ہوئے کہا ہے: "کوفے کے اصحاب حديث جیسے وكيع بن جراح اور عبدالله بن ادريس شافعی کے حامی وغیرہ علی علیہ السلام کو عثمان پر مقدم جانتے ہیں ، یہ شیعی رجحان کوفے کےاصحاب حديث کا ہے لیکن بصرہ اور واسط کے بزرگ اصحاب حديث جیسے حماد بن زيد، يحيی بن سعيد اور عبد الرحمن بن مهدی کا عقیدہ تھا کہ پہلے ابوبكر، عمر، عثمان اور پھر علی ۔ البتہ بغداد کے بزرگ اصحاب حديث حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو ثابت شدہ نہیں مانتے تھے، يحيی بن معين، ابوخثيمه اور احمد بن حنبل ایسے لوگوں میں سے ہیں جو علی علیہ السلام کی امامت کو ساقط مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی ولايت فتنه سے زیادہ کچھ نہیں تھی! ... اسماعيل جوزی نے اس عقيدےکو بغداد میں رواج دیا لیکن کچھ دوسرے لوگ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو قبول تو کرتے تھے جیسے وليد كرابيسی لیکن ساتھ ہی جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے فتنوں کے سلسلے میں فریقین کے لیے اجتہاد بالرائے کے بھی قائل تھے ..."
- ابن ابی يعلی، طبقات الحنابلة، ج1، ص243؛ بخاری، صحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب 4؛ ملاحظہ فرمائیں: اشعری، مقالات، ص458۔
- فسوی، ج2، ص8 6-8 7۔
- رجوع فرمائیں: میڈلنگ مجله ISL میں،15 شماره 57، سال 198، 223-224؛ گزشتہ فٹ نوٹ میں ہم نے اس بات کو مسائل الامامة سے نقل کیا۔ ISL جرمن جریدے DerIslom کا مخفف ہے ۔
- ابن ابی يعلی بربهاری سے، متأخر اصحاب حديث میں سے ایک نقل کرتا ہے کہ "ابوهريره، يزيد بن زريع، حماد بن زيد، حماد بن سلمه وغیرہ صاحب سنت ہیں اور ہم انہیں کےپیرو ہیں۔" (طبقات الحنابلة، ج2، ص37)، جبکہ دوسری جانب ابن سعد طبقات میں لکھتا ہے کہ "حماد بن زيد اور يزيد بن زريع عثمانی مذهب ہیں۔" (طبقات ابن سعد، ج7، 286، 298)۔
- رجوع فرمائیں، كرون Jss میں،17 شماره 6، 1996م، ص237، ابن حجر، تهذيب، ج5، ص25-26، ج7، ص127، ج1، ص27۔ مخفف مجله Journal of semitic studies۔
- ناشی، ص113؛ میڈلنگ ، امام قاسم بن ابراهيم اور معتقدات زيديه، برلن، 1965م، ص225۔ احمد بن حنبل کے بدلتے طرز فکر اور عثمانیت سے ہوتے ہوئے حضرت امير علیہ السلام کو خلیفۂ چہارم ماننے تک کے سفر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں: رسول جعفريان، "نقش احمد بن حنبل در تعديل مذهب اهل سنت"، مجله هفت آسمان، شماره پنجم۔
- ناگل، مشروعيت و خلافت، 19بن، 1975م، ص229-23۔ یہ كتاب اور كتاب قاسم بن ابراهيم میڈلنگ جرمن زبان میں ہے۔
- یہ مسئله - سنن حضرت امير علیہ السلام کی جانب عدم رجحان- اصحاب حديث کی تاریخ میں بھی بخوبی آشكار ہے اور اصحاب حدیث کی ہمنوا فقہ میں بھی۔ مالكی، شافعی و حنبلی فقہ میںحضرت امير علیہ السلام کی سنت سے بہت ہی کم استناد کیا گیا ہے جبکہ ان موضوعات سے متعلق احادیث معتبر کتب جیسے صحيح بخاری و صحيح مسلم میں بھی موجود ہیں۔
- ابن ابی شيبه، مصنف، ش 18936۔ مصنف میں، تحقيق عبدالسلام شاهين، حديث نمبر، 3 54 ، 32 2 و 37 78 ۔
- اخبار الدولة العباسية، ص2 6۔
- عثمانی ہونے کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں ہے،امویوں کے حامی، زبیری،حضرت امیر علیہ السلام کے سلسلے میں توقف سے کام لینے والے۔،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بھی حضرت امیر علیہ السلام سے محبت نہ رکھے یا مرجئہ کی طرح شش و پنج میں مبتلا ہو اس پر عثمانی ہونے کا اطلاق ہوتا ہے۔
- مسعودی، مروج، ج4، ص295-296، رساله سالم بن ذكوان ، سالم بن ذكوان اباضی، مسلک اباضيه کے بزرگ علماء میں سے ہے ،یہ رساله قديمیترين اسلامی تحریروں میں سے ایک ہے۔
- سرخسی، شرح كتاب السير الكبير للشيبانی، تحقيق منجد، قاهره، 1971-1972م، ج1، ص157-158؛ ابن ابی يعلی، طبقات الحنابلة، ج2، ص4 ؛ ناگل، مشروعيت، ص229۔
- ناشی، ص88-89، 1 9-111۔
- گذشتہ حوالہ، ص113-114۔
- میڈلنگ ، قاسم، ص 225 به بعد۔
- الخياط، الانتصار، ص1 2۔
- ص39، 126، 365، 378۔
- ناشی، ص11 ؛ خطيب بغدادی، تاريخ بغداد، ج7، ص258، ج13، ص49۔
- ملاحظہ فرمائیں: تاريخ بغداد، ج2، ص367 و 369۔
- بعض زيديه اور معتزله ایسے ہی ہیں، ر۔ ك: ناشی، ص68 اور 94۔
- بعيد ہے كه اسكافی زيدی مذهب ہو۔ اسكافی فاطمی تحریک کے دوران قيام کرنے والوں کو قبول نہیں کرتا۔ وہ بغداد کے معتزلہ میں سے ہے۔
- مسعودی صاحب مروج الذهب، امامی مذهب ہے ۔ شايد مسعودی کی اثبات الوصية کی وجہ سے ان کے سلسلے میں کچھ لوگوں کویہ غلط فہمی ہوئي ہے ۔ مسعودی کی اثبات الوصية کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مقالات محمد جواد شبيری زنجانی ، مجله انتظار میں۔
- مروج، ج4، ص 2281-2282، ممکن تھا کہ مصنف كتاب «بناء مقاله الفاطمية فی نقض الرسالة العثمانية»، تصنیفابن طاووس کی مثال پیش کرے۔
- التنبيه، ص336-337۔
- واسرسٹين، خلافت در غرب، آكسفورڈ، 1993م، ص1 کے بعد۔
- ناگل کے خیالات کے مطابق، مشروعيت، ص252-253۔
- تنبيه، ص334۔
- اغانی، ج11، ص251، یہ وہی سماک کی مسجد تھی جس کے اطراف میں عثمان کے حامی جمع ہوگئے تھےاور شیعہ اس مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔
- بہرحال ، چوتھی صدی کے بعد سے ، عثمانی بصرہ ،علوی شیعہ میں تبدیل ہو گیا ، اور اب شام ، بصرہ ، اصفہان ، حمص اور کچھ دوسرے مراکز جو عثمانی مذہب کے نام سے مشہور تھے، امامی شیعوں اور بعض اوقات انتہا پسند شیعہ جیسے غلات اور مفوضہ کا شہر بن گیا ہے۔ وقت کی کروٹیں بہت سارے عجائبات اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں۔
Add new comment