خلاصہ: امامت اور خلافت ایسا عظیم مقام ہے جس کا تقرر ذات احدیت سے مختص ہے، جیسا کہ حضرت آدم کی خلافت اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی امامت کو اللہ تعالی نے مقرر فرمایا، اسی طرح امیرالمومنین (علیہ السلام) اور آنحضرت کی اولاد میں سے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی خلافت اور امامت کا منصب بھی اللہ تعالی نے ہی مقرر کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لوگوں کے ضمیروں سے صرف اللہ تعالی آگاہ ہے، خداوند متعال ہی جانتا ہے کہ کون منصب خلافت کے لائق ہے، کون اپنے آپ کو صرف اللہ کا عبد سمجھتا ہے جسے اگر یہ منصب دیا جائے تو وہ ہر قدم صرف اللہ کے لئے اٹھائے گا، کس کو یہ ذمہ داری سونپی جائے تو وہ اسے بہترین طریقہ سے ادا کرپائے گا، کون اپنے وعدہ پر پورا اترے گا، کون فرائض الہی کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا، کون اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پا کر اللہ کے احکام کو نافذ کرے گا۔ کون اخلاقی اقدار کو اپنا کر دوسروں کے لئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ بنے گا۔ کیونکہ اتنے مسائل کے بارے میں پروردگار عالم سے زیادہ کوئی آگاہ نہیں تو صرف عالم الغیب پروردگار ہی خلیفہ کو مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اگر کوئی انسان کسی شخص کو خلیفہ بنانا چاہے تو بالکل ایسے کام سے عاجز ہے، اس لیے کہ بالفرض وہ شخص آج نیک ہے مگر جب اسے منصب مل جائے تو مستقبل میں وہی نیک، بدکردار بن جائے، خوش مزاج، بداخلاق ہوجائے، دین کا پابند دین کی تعلیمات کو ہی پامال کردے، حق کو باطل اور باطل کو حق کا لباس پہنا کر لوگوں کو حق سے گمراہ کردے، لوگوں پر ظلم کرتا ہوا ان کا حق غصب کرنے لگے، جس کی مثالوں پر تاریخ گواہ ہے۔ بنابریں اللہ ہی جانتا ہے کہ کون خلافت کے تمام ضروری شرائط کا حامل ہے اور آخر تک پابند رہے گا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرما دیا ہے: "اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ"[1]، "اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے؟ (اس کا اہل کون ہے؟)"۔ لہذا اجماع، شورا اور لوگوں کے انتخاب کرنے کے تمام نظریات باطل اور غیرمعقول ہیں۔
حضرت آدم کو خلافت عطا کرنے کے سلسلہ میں اللہ تعالی نے فرمایا: "وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً [2]"، "اے رسول. اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں"، اس آیت میں اللہ تعالی نے نہ فرشتوں یا کسی دوسری مخلوق سے سوال کیا، نہ مشورہ کیا، نہ ان کو انتخاب کا اختیار دیا، بلکہ صرف ان کو خبر دی، یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کے تقرر کا حق صرف ذات احدیت کو حاصل ہے۔
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت کے سلسلہ میں آنحضرت کو امام بنانے کے کام کو اپنے سے منسوب کیا، فرمایا: "إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا[3]"، "میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں"۔
ان دونوں آیتوں میں پروردگار نے لفظ "إِنِّي" کو استعمال کیا ہے جس کے معنی مفرد کے ہیں نہ کہ جمع کے۔ لفظ "إِنِّي" سے اپنی طرف نسبت دی جاتی ہے(یعنی میں)، جبکہ بعض دیگر کاموں میں اللہ تعالی لفظ "إِنِّا" (یعنی ہم) کو استعمال کرتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ فرشتے اس کام میں واسطہ اور وسیلہ ہوتے ہیں، یعنی فرشتے اللہ کے اس حکم کی فرمانبرداری اور اس پر عمل کرتے ہوئے اس کو منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں، اسی لیے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، مگر جس کام میں کسی کو بھی اللہ تعالی واسطہ نہ بنائے اور وہ کام صرف اللہ سے مختص ہو، اس میں مفرد کا لفظ استعمال ہوتا ہوا نظر آتا ہے، جیسے قرآن کے نزول کے بارے میں فرمایا: "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ"[4]، " بےشک ہم نے اس (قرآن) کوشبِ قدر میں نازل کیا"، کیونکہ اکثر قرآن کو نازل کرنے اور قلب رسالت پر اتارنے میں فرشتے بحکم الہی واسطہ ہوتے ہیں، لیکن جہاں عبادت کو غرض خلقت کے طور پر بتایا ہے، وہاں خلقت کے لئے مفرد کا لفظ استعمال کیا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"[5]، " اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے"، کیونکہ عبادت صرف اللہ کی ہوسکتی ہے اور عبادت اسی ذات سے مختص ہے، حالانکہ قرآن کریم میں کئی دیگر مقامات پر "خلقنا" کا لفظ آیا ہے جو جمع ہے یعنی ہم نے خلق کیا۔ بنابریں جہاں پر مفرد کا لفظ ذکر کیا ہے وہاں سے اس کام کا مختص ہونا معلوم ہوتا ہے، اسی لیے خلافت و امامت کی مذکورہ بالا دو آیات کی روشنی میں بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ خلیفہ اور امام بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور حتی فرشتے یا کوئی دوسری مخلوق اس تقرر اور تعین میں واسطہ اور وسیلہ نہیں ہے۔ ہاں اللہ کے اس فیصلہ کو لوگوں تک وہی آب وحی میں دھلی ہوئی زبان پہنچائے گی اور اعلان امامت و خلافت کرے گی جو "وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ"[6]، " اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے، اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے"کا مصداق ہو۔
لہذا خلافت اور امامت کے تعین کا ذات احدیت کے علاوہ کوئی حقدار نہیں ہے، اور واضح ہے کہ اس تعین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی واحد شخص ہیں جو اس کی صلاحیت کے حامل ہیں، کیونکہ یہ ایسا عظیم پیغام ہے جس کا فیصلہ صرف اللہ تعالی نے کیا ہے، اور اللہ کے اس عظیم پیغام کو دریافت کرنے کے لئے یقیناً عصمت کی ضرورت ہے، کیونکہ اتنے عظیم پیغام کو دریافت کرنا اور گناہ سے آلودہ بھی رہنے کے درمیان مشرق و مغرب جیسا باہمی تضاد اور فاصلہ ہے، اس سے اگلا مرحلہ ابلاغ، اعلان اور لوگوں تک پیغام پہنچانے کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ کے لئے بھی یقیناً مقام عصمت کی ضرورت ہے، کیونکہ غیرمعصوم شخص ہوسکتا ہے اپنی اغراض کی وجہ سے پیغام کو بدل کر لوگوں تک پہنچائے، مگر جب معصوم پہنچائے گا تو عین وہی پیغام ہوگا جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔
یہاں تک واضح ہوگیا کہ خلافت و امامت کا تقرر ان کاموں میں سے ہے جس کا تعلق صرف وحدہ لاشریک کی ذات سے ہے اور دوسروں کو اس سلسلہ میں سوچ بیچار کرنے، گروہ اور کمیٹی میں مشورہ کرنے اور کسی قسم کے عملی اقدام کی ضرورت نہیں، بلکہ حکم کے آنے سے پہلے صرف انتظار اور حکم کے آنے کے بعد صرف اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ خداوند متعال ہمیں اپنے مقرر کردہ امام اور خلیفہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیتا ہے تا کہ ہم اس کی اطاعت کرتے ہوئے ہدایت کی راہ پالیں اور فرمان الہی کے مطابق اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں۔ جیسے پہلی خلافت کا تعین اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں تھا، ختم نبوت ہونے کے بعد والے خلفا کا تقرر بھی پروردگار کے قبضہ اقتدار میں ہے۔ اب تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کس کو مقام امامت و خلافت کے لئے مقرر فرمایا اور کس معصوم کے ذریعہ اپنے خلیفہ کا اعلان کروایا۔ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ جسے خداوند متعال مقرر کرے اسے معصوم ہونا چاہیے اور جس کے ذریعے اس کے تقرر کا اعلان کرنا ہو اسے بھی معصوم ہونا چاہیے، لہذا معصوم کی خلافت کا اعلان معصوم ہی کرے گا۔
امیرالمومنین (علیہ السلام) کو خلافت کا منصب دینے کے سلسلہ میں اپنے حبیب پر آیت نازل فرمائی: "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"[7]، "اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا"۔ وہ کون سا حکم تھا؟ علامہ اہلسنت سیوطی نے نقل کیا ہے: "نزلت هذه الآیة : یا أیها الرسول بلغ ما أنزل إلیك من ربك، على رسول الله یوم غدیر خم، فی علی بن أبی طالب"[8]، یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غدیر خم کے دن علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی۔ لہذا واضح ہوگیا کہ خلیفہ کا تعین صرف اللہ ہی کا کام ہے۔
نیز خطبہ غدیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مختلف فقرے اس بات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی امامت و خلافت، اللہ تعالی کی جانب سے ہے:
" على امام بامر اللَّه [9]"، " علی(ع) اللہ کے امر سے امام ہیں"۔
" نصبه اللَّه "[10]، علی کو اللہ نے منصوب کیا ہے۔
" نصبه اللَّه لكم امین خلقه [11]"، "اللہ نے علی کو تمہارے لئے مخلوقات کے درمیان امین منصوب کیا ہے "
"انه امام من اللَّه [12]"، علی، اللہ کی طرف سے امام ہیں۔
"على الامام الهادى من اللَّه"[13]، علی، اللہ کی طرف سے ہدایت کرنے والے امام ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی دلائل پائے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں سے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کو امامت و خلافت کے لئے منصوب کیا ہے۔
نتیجہ: خلیفہ اور امام کو مقرر کرنا صرف اللہ تعالی کا کام ہے، کیونکہ اس امام کو لوگوں کی ہدایت کرنا ہے اور صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اس مقام کے لئے کون لائق ہے اور کون لوگوں کی ہدایت کرسکتا ہے، لہذا یہ کام صرف اللہ سے مختص ہے، بنابریں اس کام کے لئے کسی تنظیم، کمیٹی اور لوگوں کی رائے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ خداوند متعال نے قیامت تک کے لئے خلفاء کو منصوب اور مقرر کردیا ہے، لہذا غدیر کے اعلان ولایت، امامت اور خلافت کے بعد کسی قسم کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ کوئی شخص کسی شخص کو امام یا خلیفہ بنائے، کیونکہ خلیفہ تو موجود ہے ایسا خلیفہ جو خداوند قادر کی قدرت کو رونما کرنے والا اور ہر طاقت کا حامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ انعام، آیت 124۔
[2] سورہ بقرہ، آیت 30۔
[3] سورہ بقرہ، آیت 124۔
[4] سورہ قدر، آیت 1۔
[5] سورہ ذاریات، آیت 56۔
[6] سورہ نجم، آیت 3، 4۔
[7] سورہ مائدہ، آیت 67۔
[8] درالمنثور، ج2، ص 298۔
[9] فیض القدیر 218/6 ذیل ح 9000۔
[10] شواهد التنزیل 452/2 ح 1119۔
[11] ینابیع المودة 59 ، باب 7 ح 5۔
[12] التفسیر الكبیر (تفسیر الفخر الرازى) 207/1۔
[13] ینابیع المودة 594 ، باب 95، ح 4۔
Add new comment