خلاصہ: بعض فدک کو حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے نقصان سمجھتے تھے۔
وہ لوگ جو فدک کو امام علی(علیہ السلام) کے لئے اقتصادی قوت ہونے کے اعتبار سے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے نقصان سمجھتے تھے، انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کے یاور و انصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں، جعلی حدیث نَحْنُ مُعَاشَرَ الاٴنْبِیَاءِ لَا نُورِّث (ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے، کے بہانہ کر کے انہوں نے فدک اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) قانونی طور پر اس پر حق رکھتی تھیں اور کوئی شخص ”ذو الید“(جس کے قبضہ میں مال ہو) سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا، جناب سیدہ(سلام اللہ علیہا) سے گواہ طلب کئے گئے، بی بی نے گواہ پیش کئے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، بعد میں آنے والے خلفاء میں سے ایک نے جو اہل بیت(علیہم السلام) سے محبت کا اظہار کرتا تها، اس نے فدک کو لوٹا دیا تھا لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دوسرے خلیفہ نے اسے چھین لیا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیا، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس نے بارہا ایسا ہی کیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفہٴ اول نے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔[صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۸۰]۔
* صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ۳ ص۱۳۸۰ حدیث:۵۔
Add new comment