خلاصہ: حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا): اے ابی قحافہ کے بیٹے! تم تو اپنے باپ کے وارث ہوسکتے ہو، میں رسول اللہ کی بیٹی اپنے باپ کی وارث نہیں ہوسکتی۔
جس وقت دربار میں مہاجرین اور انصار کا مجمع حاضر تھا، فاطمہ بنت رسول الله(صلی الله علیہ و آلہ و سلم) داخل ہوئیں اور فرمایا: میں فاطمہ بنت محمد ہوں. سب سے پہلے بتانا چاہتی ہوں کہ یقینا ایک رسول تم ہی میں سے تمہاری طرف آیا جس پر تمہاری تکالیف بہت گران گذرتی ہیں اور تمہاری ہدایت پر اصرار کرنے والا ہے اور مؤمنین پر رئوف اور مہربان ہے، اگر تم لوگ غور کرو تو اس رسول کو میرا باپ پاؤگے جبکہ وہ تمہارا باپ نہیں ہے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ) کو میرے چچا زاد علی(علیہ السلام)) کا بھائی پاؤگے جبکہ وہ تمہارے بھائی نہیں ہیں. پهر اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے میراث نہیں ہے؟ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟ اور کون ہے جو یقین والوں کے لئے خدا سے بہتر فیصلہ کرتا ہے؟ اے ابی قحافہ کے بیٹے! تم تو اپنے باپ کے وارث ہوسکتے ہو، میں رسول اللہ کی بیٹی اپنے باپ کی وارث نہیں ہوسکتی؟ تم نے نہایت عجیب اور برا عمل انجام دیا ہے. پس خدا کا حکم اور اس کا فیصلہ بہترین حکم ہے اور زعیم میرے والد محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہیں اور ہماری میعادگاہ قیامت ہے اور اس وقت باطل والے نقصان اٹهائیں گے.[منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة و تكملة منهاج البراعة (خوئى)، ج۲۰،ص۹۷]
* ميرزا حبيب الله/ حسن زاده آملىٍ، حسن و كمرهاى، محمد باقر، منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة و تكملة منهاج البراعة (خوئى)، مكتبة الإسلامية، ۱۴۰۰ق، ج۲۰،ص۹۷.
Add new comment