خلاصہ: اس مضمون میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فدک، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا شھزادی زہرا(سلام اللہ علیہا) کو دیا گیا تحفہ تھا، اور اس بات کو شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ سورۂ اسراء کی آیت نمبر ۲۶، کے ضمن میں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کئی روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کو ہدیہ دیا تھا، اہلسنت کی تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں اس کے بارے میں مختلف روایتیں نقل ہوئی ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) نے فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو عطا کردیا تھا[۱]۔
اہل سنت کی کتابوں میں سے ایک کتاب شواہد التنزیل ہے، جس میں اہل بیت( علیہم السلام) کی شان میں نازل شدہ آیتوں کی تحقیق کی گئی ہے، جس میں اس آیت: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ[سورۂ اسراء، آیت:۲۶] اور دیکھو قرابتداروں کو ان کا حق دے دو»، کے ذیل میں سات واسطوں سے ثابت کیا ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کو عطا کیا ہے۔
وہ روایات کہ جس کو سات طریقوں سے نقل کیا ہے وہ یہ ہے، جب یہ آیت: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ[سورۂ اسراء، آیت:۲۶] اور دیکھو قرابتداروں کو ان کا حق دے دو»، نازل ہوئی تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کو بلایا اور انھیں فدک عطاکردیا[۲].
درمنثور میں سیوطی نے اس روایت کی سند کے سلسلہ کو دو افراد پر ختم کیا ہے، ایک ابی سعید پر اور دوسرے ابن عباس پر، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کو بلایا اور فدک الگ کرکے انھیں عطا کردیا[۳]۔
علمائے شیعہ کے نزدیک واضح ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حکم الٰہی سے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کو فدک عطا فرمایا، مگر ہم ایک روایت پر اکتفاء کرتے ہیں جو مختلف کتابوں میں نقل ہوئی ہے:
جب یہ آیت: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ[سورۂ اسراء، آیت:۲۶] اور دیکھو قرابتداروں کو ان کا حق دے دو»، نازل ہوئی تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ ذوالقربی کون ہیں؟ پروردگار عالم کی طرف سے جبرئیل نے وحی لائے کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو ہدیہ کردو، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو بلایا اور فرمایا: خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو فدک عطا کردوں، حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) نے اس ہدیہ کو قبول کیا اور جب تک پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) باحیات تھے وہاں حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کے نمائندے کام کرتے رہے[۴]۔
نتیجہ:
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ فدک کا فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کی ملکیت ہونے کا معاملہ کس قدر صاف اور شفاف تھا لیکن اس قضیہ کو اتنا پیچیدہ بنا دیا کہ جسے بعض مسلمان آج تک حل نہیں کر پائے۔ جبکہ در حقیقت یہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا کیوں کہ یہ سرزمین، غیر جنگی فتوحات میں حاصل شدہ زمین تھی جو نصوص اسلامی کے مطابق رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملکیت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔حسن بن يوسف علامه حلى، نهج الحقّ و كشف الصدق، دار الكتاب اللبناني، ۱۹۸۲م، ص۲۵۴۔
[۲]۔ عبيد الله بن عبدالله حسكاني، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، التابعة لوزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامي، مجمع إحياء الثقافة الإسلامية، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۳۹۔
[۳]۔ گذشتہ حوالہ، ج۱، ص۴۴۱۔
[۴]۔محمد بن حسن شيخ حر عاملى، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، اعلمى، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۹۔
Add new comment