طی الارض کیا ہے ؟

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:طی الارض کی ایک تفصیلی بحث ہے لیکن ہم یہاں مختصر انداز میں اسے بیان کریں گے تاکہ طی الارض کی حقیقت معلوم ہو جائے ۔

طی الارض کیا ہے ؟

1. «طی الارض» ایک فوق العادہ اور غیر معمولی کا م کو کہا جاتا ہے [1] اور طی الارض یعنی  ایک  لمحہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا۔ [2] اور ہر ایک انسان یہ قدرت نہیں رکھتا فقط وہ لوگ کہ جن کے پاس فوق العادہ روحانی طاقت ہو [3]
2. اس طاقت کو حاصل کرنے کے لیے انسان مجبور ہے کہ وہ پہلے کچھ مراحل سے گزرے اور ان میں سے سب سے پہلی چیز اپنے نفس کی معرفت کا حصول ہے، یعنی اس چیز کو سمجھے کہ نفس انسان ہر چیز سے جدا ہے اور اس کے اندر کوئی بھی حرکت نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند متعال کی اجازت ہو وگرنہ کسی کام میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو گا اور دوسری بات یہ ہے کہ نفس انسان کوئی مستقل چیز نہیں ہے اس کے پاس اپنی کوئی خاص قدرت نہیں ہے کہ جس سے وہ سب کاموں کو انجام دے بلکہ وہ محتاج رہتا ہے مشیت اور قدرت الہی کا، اور قوت الہی مظہر ہے اسماء اور صفات الہی کا کہ جو اسی کی منشاء سے حاصل ہوتی ہے ۔
3. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قدرت اور یہ طاقت کیسے حاصل ہو سکتی ہے اس کے لیے جو اہم چیز بتائی گئی ہیں وہ پاک رہنا ہے چاہے وہ باطنی نجاست سے ہو یا ظاہری نجاست سے ،علماء نے اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حتی گناہ کی فکر بھی نہ کریں ،اور دوسری طرف یہ ہے کہ خود کو ہر وقت خداوند متعال سے متصل رکھنا یعنی ہمیشہ اور ہر جگہ فقط خدا ،اور اسی تقرب الہی سے وہ اسم اعظم تک جا پہنچے گا کہ جس کے ذریعے وہ کائنات میں تصرف کر سکتا ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ طی الارض حقیقت میں ایک روحانی طاقت ہے اور اس وقت اس کے نفس کو بھی نفس قدسی کہا جائے گا ۔[4]
4.  ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ خود کو برائیوں سے بچا کر رکھے لیکن اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا ،رسول اور ان کی  آل سے دور ہے اگر ان کی مدد لے گا تو یقینا وہ ایک کامیاب زندگی گزارے گا اور اسی طرح دین مبین اسلام نے بھی زندگی گزارنے کے راستے معین کیے ہیں اگر اعلی مقام پر پہنچنا ہے تو ان راستوں پر چلنا ہو گا۔
5. رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا ارشاگرامی ہے کہ : «خداوند متعال نے فرمایا: کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرا بندہ مجھ سے محبت کرے اور میں اس کا جواب نہ دوں ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرا بندہ مجھ سے بات کرے اور میں نہ سنوں ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرا بندہ مجھ سے کچھ مانگے اور میں عطا نہ کروں ۔ ۔ ۔ ۔» [5]
6. اس چیز کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اہل بیت عصمت و طھارت (علیھم السلام) کی مدد کے بغیر کسی اعلی مقام پر پہنچے اس لیے واجب ہے کہ ان سے مدد لی جائے جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں بیان ہوا ہے کہ: «خداوند متعال نے اس عالم کی بنیاد آپ سے کی اور اس کا اختتام بھی آپ پر کیا ۔»[6]
7. کسی بھی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ایک استاد کا ہونا ضروری ہے کہ جو خود عارف ہو و گرنہ گمراہی کے راستے پر بھی جا سکتا ہے ۔.[7]

نتیجہ
اس پوری بحث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ طی الارض جیسے اعلی مقام تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے خود کو پاک رکھنا ہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ اہل بیت (علیھم السلام) سے توصل کرنا ضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالےجات
[1]  . علامه سید محمد حسین حسینی تهرانی، مهر تابان، صص 182 ـ 183.
[2]  . راه روشن (ترجمه محجةالبیضاء)، ج1، ص32.
[3]  . مهر تابان، صص 182 ـ 183؛ برای آگاهی از حقیقت طی الارض، نک: نمایه ی حقیقت طی الارض.
[4]  . سید یوسف ابراهیمیان، ارمغان آسمان(شرح بر کتاب انسان در عرف عرفان علامه حسن زاده آملی)،ص 526،534.
[5]  . محاسن برقی، ج 1، ص 291؛ اصول کافی، ج 2، ص 352.
[6]  . "بکم فتح الله و بکم یختم"، مفاتیح الجنان، زیارت جامعه ی کبیره.
[7]  . شرح مقدمه ی قیصری، ص 594 و 595.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41