آبرو کی حفاظت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ایک مسلمان پر اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کرنا فرض ہے اور اس کو پامال کرنے کا حق اسے نہیں حاصل ہے۔

آبرو کی حفاظت

     مسلمانوں کے اوپر چند چیزوں کی حفاظت اور پاسداری لازم ہے؛ جان، مال، ناموس اور آبرو۔ جو کوئی بھی ان چیزوں کو خطرے میں ڈالے، اس سے مقابلہ اور دفاع کرنا ضروری ہے۔

     اسلام نے اپنی انسان ساز اور فضیلت آفرین تعلیمات میں اس مسئلہ کی جانب بھرپور توجہ کی ہے اور مسلمانوں سے کہا ہے کہ ان چند چیزوں کے دفاع کی کوشش کریں، انھیں میں سے  ایک ’’آبرو اور عزت‘‘ ہے کہ جس کی حفاظت  کے لئے بیحد تاکید کی گئی ہے اگر چہ اس کی حفاظت، مال و ثروت کے کم ہوجانے پر منحصرکیوں نہ ہو۔

     امام علی (علیہ السلام) نے اس بارہ میں فرمایا: ﻣﺎءُ وَﺟْﮫِﮏَ ﺟﺎﻣِﺪٌ ﺗُﻘْﻄِﺮُهُ اﻟﺴّﺆالُ، ﻓَﺎﻧْﻈُﺮْ ﻋِﻨﺪَ ﻣَﻦْ ﺗُﻘْﻄِﺮُهُ؛ تمہاری آبرو(برف کی مانند) منجمد (جمی ہوئی)  ہے، کسی سے خواہش کرنا یا مانگنا اس کو پگھلا دیتا ہے پس غور کرو کہ کس کے سامنے اپنی عزت پامال کر رہے ہو[۱]۔

     ایک انسان جب تک کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلاتا ہے، اس کی عزت و آبرو  محفوظ رہتی ہے اور اس کی عظمت باقی رہتی ہے، کسی سے مانگنا یا تقاضا کرنا، اس کی قدر و منزلت میں کمی کا سبب ہوتا ہے لہذا اسے سوچنا چاہئے کہ کس کے سامنے دست سوال بلند کر رہا ہے! کیا وہ شخص، بردبار، عظیم اور شریف  ہے یا کوئی پست و کم ظرف کہ جو نہ صرف اس کی حاجت کو پورا نہیں کرے گا بلکہ اس کو دوسروں کی نظروں میں بھی گرا دیگا۔

     نتیجہ: کسی کے سامنے دست سوال و نیاز کو دراز کرنا ایک طرح کی ذلت و خواری ہے جو ایک غیرتمند مسلمان کی شان کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے جو ہمارے پیشواؤں نے ہمیں اس کام سے منع کیا ہے اور وقت ضرورت ایسا کرنے کے لئے معیار اور ضوابط بیان کئے ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] نہج البلاغہ، حکمت ۳۴۶۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 17