متفرقات
ورغلانا ، ایک دوسرے کی چغلی ، کسی کے خلاف بھڑکانا، عداوت اور کینہ کو ہوا دینا ، شیطانی حربہ اور شر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، ہمیں چاہئے کہ ایک دوسرے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے ایک دیگر کے دست و بازو بنیں، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں، ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار ہوں ، یاد رکھیں کہ خداوند متعال نے اتح
انسانی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا شعور و ادراک ہے، آغاز تاریخ سے دیگر مخلوقات عالم یہاں تک کہ فرشتوں پر انسان کے امتیاز کی وجہ اس کی یہی سمجھداری تھی، اسی ضرورت کے پیش نظر خداوند عالم نے اپنی طرف سے بھیجے جانے والے تمام ہادیان دین و مذہب کو سماج کے سارے افراد سے زیادہ با شعور بنا کر بھیجا ج
مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے آیت اللہ ٰ محمد محمدی ری شہری کے انتقال پر اپنا تعزیتی پیغام جاری کرتے ہوئے سیاست اور تصنیف کے میدان میں مرحوم کی خدمات کی قدردانی کی ۔
تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
اناللہ واناالیہ راجعون
وطن عزیز ھندوستان میں مغرب کی اندھی تقلید میں
بعض سیاسی پارٹیاں اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے محبت کے بجائے نفرت کا ماحول بناکر پر امن اور پیار و محبت سے لبریز فضا کو مسلسل نفرت انگیز اور نا امن بنانے کی سازشیں رچ رہی ہیں اور بعض بھولے بھالے عوام کے جذبات کا غلط استعمال کر رہی ہیں-
عوام کے سامنے امام خمینی رحمة الله علیہ کا تواضع زبان زد خاص و عام تھا اور یہ چیز اپ کی سیرت میں بخوبی قابل مشاھدہ رہی ہے ، اس کے برخلاف اسلام دشمن عناصر کے بدن میں اپ کا نام سنکر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور وہ تھر تھرانے لگتے تھے ، یہ کردار قران کریم کی ایات کا ائینہ دار ہے جیسا کہ قران کریم نے سور
بات تلخ ہے، کڑوی ہے، زہر ہے مگر سچ ہے!
موجودہ حالات کے پس منظر میں لکھی جانے والی یہ مختصر سی تحریر ہمارے لئے قابل غور ہے...
سچ بیاں کرنا ہے لب کھولے گا کون
تم ہی چپ بیٹھے تو پھر بولے گا کون
محبت اہل بیت کے جرم میں سعودیہ میں تکفیری وھابیوں کے ہاتھوں کے شیعوں کا قتل
خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد اور جرائم سے ایک بات تو صاف ہے کہ حکومتیں صورت حال کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ تو کیا اب ہماری خواتین اسی طرح ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہیں گی یا اس کے خلاف اٹھنے اور سیاسی و سماجی سطح پر کسی تحریک کے لیے آمادہ ہوں گی۔ کس کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو کم از کم مسلم خواتین کو تو اس کا احساس ہونا چاہیے اور ان کی جانب سے ملک کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ وہ ہندوستانی خواتین پر ہورہے ظلم کے خلاف آگے بڑھیں گی۔ یہ سوچ ایک طرف تو عام خواتین میں عزم و اعتماد پیدا کرے گی دوسری طرف اس ’’بھرم‘‘ کو بھی توڑنے کا ذریعہ بنے گی کہ مسلم خواتین کو ان کا پردہ گھروں میں قید اور سماجی اور معاشرتی اعتبار سے بے کار بنارہا ہے۔
اس جائزہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام اور مسلمان دشمنی کا زہر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کہ ’تریاق‘ پھیلانے کا کام کتنے بڑے پیمانے پر اور کس مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس تیزی کے ساتھ تاریکیاں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ اگر روشنیاں نہ پھیلائی جائیں تو اس ملک کو تاریکیوں میں غرق ہونے سے کون روک سکتا ہے؟