شیعہ کشی کا راہ حل

Sun, 03/06/2022 - 11:09
پاکستان میں شیعہ کشی

پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے شیعہ نسل کشی کا تسلسل ہے۔ 

علت ناصبیت ہوں یا رائیت(RAW)۔ سی ائی اے (CIA)یا ایم آئی سکس(MI6)۔ سیپیک (CPEC)کی ناکامی مطلوب ہوں یا مملکت کی کمزوری۔
جو عامل بھی ہوں، بالفعل شیعہ کشی کا بازار گرم ہے۔ شیعہ کے مقدس لہو سے مساجد و امام بارگاہ، بازار و کوچہ، سڑکیں اور کنارے، دکانیں یا کان کنی کے مقامات، بس یا فٹ پاتھ ہر جگہ سرخ ہیں۔
ہر جگہ وہی ناصبی قاتل ہے۔ اگرچہ ان کے عنوان مختلف ہیں۔ کبھی سپاہ صحابہ تو کبھی جیش عدل تو کبھی طالبان اور کبھی پاکستانی داعش کے نام پر ایک کام کر رہے ہیں وہ کام اور کچھ نہیں بلکہ تشیع کا مقدس خون بہانا۔

 ریاستی اداروں کا کردار؟
ایک مملکت میں امن کا قیام ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ پیسہ ریاستی اور حکومتی اداروں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس خطیر کام کو انجام دے۔
ان کے پاس طاقت اور شناخت دونوں ہیں۔ 
پس نظام تقسیم کار کی رو سے یہ کام حکومت اور انتظامی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
ان کے اطلاعات جمع کرنے کے اہم ادارے موجود ہیں۔ دنیا کا پہلا جاسوسی ادارے کا حامل ہے۔ پس دہشتگردوں کی شناخت بھی موجود ہے اور ان کے عزائم اور امور سے بھی آگاہ ہیں۔

دفاعی ادارہ۔ معلومات اکھٹا ہونے کے بعد ان کے خلاف اقدام اٹھانے ی باری آتی ہے۔ جس کیلئے قدرت درکار ہے۔ 
ہمارے پاس دنیا کے بہترین و قوی ترین قدرت کے مظاہر موجود ہیں جو اگر چاہے تو راتوں رات ہزاروں دہشتگردوں کا صفایا کرسکتے ہیں۔

پس اطلاعاتی نظام اور عملی نظام دونوں سالم و قوی ہیں۔

لیکن یہ دونوں ادارے کیوں ان چالیس سالوں میں ان مظلوم تشیع کی حفاظت کیلئے فعال نہیں ہوئے؟ 
اب تک شاید لاکھوں شیعہ ان ظالموں کے ہاتھوں بڑی بے دردی سے ذبح ہوا ہے لیکن کبھی بھی ان کے قاتلین کے چہرے سامنے نہیں آئے۔ کبھی بھی ان پر مقدمہ نہیں ہوا اور کبھی بھی انہیں لٹکایا نہیں گیا۔

 آخر کیوں؟
اس میں کئی احتمال پایا جاتا ہے۔
یا حکومت کو پتہ نہیں کہ کون کررہا ہے؟ یعنی حکومت کا جاسوسی نظام اتنا ضعیف ہے کہ اسے اپنے ملک کے افراد پر علمی تسلط نہیں؟
یا حکومت جانتی ہے لیکن اس کے پاس اس سے مقابلہ کرنے کی قوت نہیں؟
یا اسے پتہ بھی ہے اور اس کے پاس قوت بھی ہے لیکن اسے شیعہ سے کوئی ہمدردی نہیں، اصلا کسی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ 
یا اس میں ایسے افراد موجود ہیں جو خود شیعہ کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یعنی حکومت کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

 شیعہ کیا کرے
اب جبکہ ملک میں امن و امان برقرار کرنے کے عمل میں حکومت یا ناکام ہوگئی ہے یا کھلی چھوٹ دے کر رکھی ہے، ہر حال میں امن و امان برقرار نہیں ہے۔
یہ ناامنی صرف شیعہ کے لئے ہے۔ شیعہ کے مقدسات سے لیکر ان کے وجود تک محفوظ نہیں ہے۔ 
ایسے میں شیعہ کیا کرے؟

 دو طرز عمل
سیاسی طرز عمل۔ 
شیعہ سیاستمدار طبقہ جو سال بھر غائب ہوتے ہیں وہ انہی ایام میں اپنے سلیپنگ سیلز سے باہر آتے ہیں اور شیعہ میں یہ تاثر پیدا کرنے کوشش کرتے ہیں کہ ہم ہی وہ مسیحا ہیں جو تمہیں نجات دیں گے۔ لہذا وہ لاشوں کی سیاست کرتے ہیں۔ شہدا کو سڑکوں پر لاکر روڈ بلاک کرکے حکومت سے مطالبات شروع کرتے ہیں کہ وہ یہ کام کرے۔ 
جبکہ انہیں پتہ ہے کہ حکومت نے نہیں کرنی۔ لیکن شیعہ قوم کے سامنے مسیحا بننے کی فرصت کو صداقت کیلئے گنوانا نہیں چاہتے۔ 
لہذا ہر شہادت پر ایک ہی عمل بار بار دہراتے ہیں۔ دھرنا۔۔۔۔
جبکہ مشہور ہیں کہ ہم علی ع کے شیعہ ہیں۔ لیکن علی ع کی ایک بھی نہیں سنتے۔
علی ع کا فرمانا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں گھستا۔
یعنی ایک کام سے اگر نتیجہ نہیں نکلے تو مومن اس کام کے متبادل راستے کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ 
دھرنا کوئی مذہبی عمل نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم پر نتائج ضروری نہیں ہے بلکہ عمل ضروری ہے۔
دھرنا ایک سیاسی مستعار عمل ہے جو بعض مواقع پر کام آتے ہیں نہ کہ تمام جگہوں پر۔
شیعہ بحیثیت ایک ملت سوچیں کہ دھرنے نے کیا تشیع کو بچایا ہے؟
یہاں پر میرا مخاطب شیعہ ملت ہے نہ کہ شیعہ سیاسی طبقہ۔ شیعہ ملت کا ہدف شیعہ کلینگ روکنا ہے۔
جبکہ شیعہ سیاسی طبقہ کو دھرنا سے فائدہ مل رہا ہے کیونکہ دھرنا کی وجہ سے ان کو سیاسی حمایت مل رہی ہے۔
لہذا وہ تو بار بار دھرنے کے عمل میں گھسیں گے۔
شیعہ جس کا ہدف خون تشیع کی حفاظت ہے۔ یہ دیکھیں کہ آیا دھرنے نے شیعہ خون محفوظ کیا ہے یا نہیں؟
جواب واضح ہے کہ نہیں کیا۔ 
پس مولا علی ع کی فرمان پر عمل کرکے بار بار اسی ایک سوراخ میں نہ گھسو۔ بلکہ ایک متبادل راستے کا سوچیں۔ جو نتیجہ دے۔

 دوسرا راستہ
تشیع کے سامنے دوسرا راستہ مقابلے کا راستہ ہے۔ تشیع پر ضروری ہے کہ وہ قرانی راستہ انتخاب کرے۔
قران نے انسانی زندگی، دین اور مقدسات کی حفاظت کا جو نظام وضع کیا ہے اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔
جہاں پر عبادات کا نظام دین نے وضع کیا ہے، وہیں پر دیگر نظام بھی موجود ہیں۔ دین کا اپنا سیاسی نظام ہے۔ دین نے اپنا اقتصادی نظام متعارف کرایا ہے۔ اسی طرح سے اجتماعی و تعلیمی نظام بھی دیا ہے۔ 
انہی اہم نظاموں میں سے ایک نظام، نظام دفاع ہے۔ دین نے اسے ایک واجب کے طور پر ذکر کیا ہے۔
نماز روزہ، خمس زکات کے ساتھ اسے بھی واجب قرار دیا ہے۔ جہاد۔
چونکہ لفظ جہاد، دہشتگردوں نے اپنی دہشتگردی کے لئے استعمال کیا ہے اس وجہ سے یہ لفظ انسانی اذہان میں خوبصورت نہیں دکھتے۔ لہذا غلط مفہوم ذہن میں آتا ہے۔
جس طرح اللہ اکبر کا لفظ ہے، بہت ہی عظیم معانی پر مشتمل لفظ ہے لیکن داعش کے قبیح عمل سے جڑنے کی وجہ سے یہ لفظ بھی انسانی اذہان میں قبح کے حامل ہوگیا ہے۔
جہاد بہت وسیع معنی کے حامل ہے۔ 
میں خلاصتا اسے عرض کرتا ہوں۔
میری جہاد سے مراد دفاعی نظام کی تشکیل ہے۔ 
دفاع کے اپنے اصول ہیں۔ 
دفاع کے دو بڑے اصول۔ پہلا اصل۔ دشمن کے حملے کو روکنا۔
دوسرا اصل۔ دشمن کو حملے سے روکنا۔

بظاہر دونوں ایک جیسا دکھتا ہے لیکن ان کی ماہیت جدا ہے۔
اگر سادہ الفاظ میں بیان کرے تو یوں ہے۔
کہ اگر دشمن حملہ کرے تو اسے پسپا کرنا یہ ایک اصل ہے۔ یعنی جب دشمن آپ کے حفاظتی حصار تک آئے تب آپ اسے نابود کرے یا شکست دے
اس اصل کے اپنے طریقہ کار اور روش ہیں۔

دوسرا اصل دشمن کو حملے کرنے سے روکنا۔ جسے علت شکنی کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ دشمن کے حملے سے پہلے ہی حملہ کرے اور اس کے پورے وجود کو ختم کرے۔ اس انتظار میں نہ رہے کہ وہ آپ کے گھر تک آئے پھر آپ حفاظت کرے۔ 

بہرحال پاکستانی تشیع اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ دشمن کو نابود کرے۔ 
لہذا اصل اولی تشیع کے دفاع کیلئے موجود ہے۔ 
یعنی اپنے مقدس مقامات اور اجتماع کے مقامات پر دفاعی حصار بنائے۔
دفاعی حصار سے مراد یہ نہیں کہ دو نفر ہاتھ میں بندوق لیکر مسجد کے سامنے کھڑے رہے۔
بلکہ آپ سکیورٹی کے کئی تہہ اور لیئر بنائے۔ کم از کم چار پانچ لیئر ہوں۔
تاکہ اگر دشمن آپ کے حفاظتی میں وارد ہوں تو اسے کئی مرحلہ طے کرے مسجد یا امام بارگاہ ت رسائی ہوں۔
آج کی طرح نہ ہوں کہ دشمن نے آتے ہی سکیورٹی گارڈ کو شہید کیا اور اندر گھس گئے۔
بلکہ حداقل تین یا چار لئیر بنائے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر ایک مرحلے میں ہمارا مدافع شہید ہوا تو کم از کم دو مرحلے ہوں جو دشمن کو روک کر رکھیں۔

پس ہماری دفاع سے مراد ہر شیعہ مذہبی ادارہ اپنے مراکز کی حفاظت کیلئے حد اقل قابل قبول حد تک حفاظتی حصار فراہم کرے۔

پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق ہر فرد و اجتماع کو اپنی دفاع اور حفاظت کا حق حاصل ہے۔ 
لہذا لینس دار اسلحہ اور ایمونیشن ہر شیعہ مراکز میں بقدر کافی موجود ہوں۔

اسی دفاع کا نام جہاد ہے۔ جو آج کے زمانے میں قابل اجرا جہاد ہے۔ سب سے پہلے تو تمام تشیع پر واجب ہے۔ جب ایک طبقہ اپنی دفاع کا انتظام کرتا ہے پھر دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔

البتہ یہ جہاد کی ایک محلی صورت ہے۔ جیساکہ پہلے بیان ہوا ہے کہ جہاد کا باب بہت وسیع ہیں۔ لیکن جب دین کے نام آپ کے ہم مذہب کی جان و مال و عزت و آبرو اور مقدسات دین،خطرے میں ہوں۔ تو ان کی حفاظت کیلئے قیام کرنا جہاد ہے۔

اسے سیکیورٹی گارڈ کہہ کر پست قرار دینا غلط بات ہے۔ وہ بندہ جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دشمن کے گولیوں کیلئے سینہ سپر رہتا ہے اس انسان کا دینی نام مجاہد ہے۔ 
یہ کوئی کرایہ کا بندہ نہیں بلکہ مساجد میں عبادات میں مشغول انسانوں کے محافظ ہیں۔ 
ان چند ایثارگر انسانوں کے وجود سے نماز قائم ہوجاتی ہے۔ تبلیغ دین ممکن ہوجاتا ہے۔
لیکن اسے پیشہ بنادیا گیا ہے۔ اس کا مقام گرا دیا گیا ہے۔
جبکہ مدافع نماز اور مدافع مسجد و مدافع مقدسات کو دینی زبان میں مجاہد قرار دیا ہے۔

یہ بھی ایک میدان جنگ ہے۔ اس میدان جنگ میں مجاہد حاضر ہوتے ہیں۔
دشمن کا پہلا ہدف یہی مجاہد ہوتا ہے۔
لہذا اس کو پیشے سے نکال کر جہادی طور پر لینے کی ضرورت ہے۔  جس دن اسے پیشے کی بجائے ایک واجب عمل طور پر اٹھا لے اور اپنے دوش پر اٹھائے۔ اور کچھ عشاق شہادت مدافع دین اور مدافع مظلومین کے عنوان سے سینہ سپر ہوں تو مساجد اور تمام پاکستان محفوظ ہوسکتا ہے

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 52