دنیا کے موجودہ حالات میں شعور و بصیرت کی زیادہ ضرورت

Sat, 03/26/2022 - 18:10
امام مھدی عج

انسانی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا شعور و ادراک ہے، آغاز تاریخ سے دیگر مخلوقات عالم یہاں تک کہ فرشتوں پر انسان کے امتیاز کی وجہ اس کی یہی سمجھداری تھی، اسی ضرورت کے پیش نظر خداوند عالم نے اپنی طرف سے بھیجے جانے والے تمام ہادیان دین و مذہب کو سماج کے سارے افراد سے زیادہ با شعور بنا کر بھیجا جس کا اعتراف اس زمانے کے تمام صاحبان فضل و کمال نے کیا۔

جیسا کہ دور جناب مسیح سلام اللہ علیہ میں اس دور کے اطباء ، دور جناب موسیٰ سلام اللہ علیہ میں اس دور کے جادوگر اور دور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم میں اس دور کے فصحاء و بلغاء کے اقوال تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔

پروردگار عالم نے انسان کی تخلیق کے بارے میں  یہ اعلان کیا کہ تم اس عالم میں دنیا میں آئے جب کچھ نہیں جانتے تھے تو اسے پڑھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ، تعلیمات اسلامی کا آغاز لفظ اقرأ (پڑھو) سے ہوا۔

گویا اسلام نے غافل ذہنوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر ان سے احکام دین ماننے کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا بلکہ پہلے ذہن کو بیدار کیا، انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا اور جب ان کا شعور بیدار ہو گیا تو اپنی الٰہی تعلیمات ان کے ذہن و دماغ تک پہنچائیں۔

یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے با شعور ہو کر دین سیکھا تھا اور خدا پر  ایمان لائے تھے وہ سخت ترین مصائب و آلام کے با وجود اسی راہ پر گامزن رہے۔ جناب یاسر، جناب سمیہ، جناب بلال حبشی، جناب سلمان، جناب ابوذر، جناب مقداد ،جناب عمار جیسی نہ جانے کتنی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے علم و شعور کی روشنی میں دین خدا کو قبول کیا تو آخری سانسوں تک اسی کے پابند رہے۔

اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام کے دور میں جناب مالک اشتر، جناب کمیل، جناب میثم، جناب اویس قرنی، جناب عدی ابن حاتم رضوان اللہ علیھم جیسی شخصیات نے الٰہی رہبر کی حمایت فرمائی جب کہ لا شعور افراد کی نمایاں فرد ابو موسیٰ اشعری نے اپنی حماقت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے خدائی رہبر کے خلاف فیصلہ دیا جس کے نتیجہ میں حکومت و خلافت حضرت علی علیہ السلام جیسے معصوم ہادی کے بجائے حاکم شام کےمنحوس ہاتھوں میں پہنچ گئی۔

نیز صلح امام حسن علیہ السلام کے موقع پر بھی دونوں طرح کے افراد کی مثالیں پائی جاتی ہیں ، کچھ با شعور افراد نے پیغمبر اسلام (ص) کی صلح حدیبیہ کی طرح امام حسن (ع) کی صلح کو بھی نصرت اسلام اور حفاظت دین و ایمان کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا جب کہ بے شعور افراد نے اس صلح کو مومنین کی ذلت و رسوائی قرار دیا ، یہاں تک کہ فرزند رسول (ع) کو زخمی کردیا گیا۔

اور پھر واقعۂ کربلا میں شعور اور لا شعور کی فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ با شعور افراد کی قلت کے با وجود کربلا کی جنگ کی داستان اس طرح رقم ہوئی کہ چند افراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے قیامت تک کے لئے انسانی شعور و بصیرت کی لاج رکھ لی۔

 پھر واقعۂ کربلا کے بعد کربلا کے اسیروں نے اپنی اسیری کو اس عظیم واقعہ کے تئیں شعور و بصیرت پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا اور کوفہ و شام خاص طور پر شام میں جہاں حاکم شام کی طرف سے پیدا کی جانے والی غفلت اور لاشعوری نے وہاں کے اذہان کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا، اپنے خطبوں سے ایک انقلابی کیفیت پیدا کردی اور اسراء کے قافلہ کے پہنچنے سے پہلے جو شامی جنگ کی فتح پر جشن منا رہے تھے کربلا کے ان اسیروں نے چند دنوں میں ان کے ذہنوں کو اس طرح بیدار کیا کہ وہ افراد سرکار سید الشہداؑء کے عزادار قرار پائے۔

اس کے بعد ہر دور میں با شعور افراد کے ذریعہ دین خدا کی حفاظت ہوتی رہی ، شعور و لا شعور کا یہ ٹکراؤ ہی تھا کہ لاشعوری کی بنیاد پر زمانے کے ائمہ علیہم السلام کی صحیح معرفت حاصل کرنے اور ان کا اتباع کرنے کے بجائے انہیں اذیت و آزار کا نشانہ بنایا گیا ، یہاں تک کہ امام عصر ارواحنا فداہ کو حجاب غیبت میں جانا پڑا۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 32