اس جائزہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام اور مسلمان دشمنی کا زہر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کہ ’تریاق‘ پھیلانے کا کام کتنے بڑے پیمانے پر اور کس مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس تیزی کے ساتھ تاریکیاں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ اگر روشنیاں نہ پھیلائی جائیں تو اس ملک کو تاریکیوں میں غرق ہونے سے کون روک سکتا ہے؟
خواتین کے درمیان تحریکی کام کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاصر تحریکوں اور نظریات سے واقفیت بھی حاصل کی جائے۔ اسلام پسند خواتین کو معلوم ہو کہ اس ملک میں خواتین کی دیگر کونسی تحریکات کام کررہی ہیں۔ ان کے مقاصد اور نظریات کیا ہیں؟ وہ کس درجہ میں اسلام کی حریف ہیں۔ یہ واقفیت تحریکی خواتین کو عملی میدان میں اپنی حکمتِ عملی کے تعین اور دعوتی اپروچ کے انتخاب میں معاون ہوتی ہے۔ اس سے وہ مختلف خواتین سے صحیح طور سے مباحثے و ڈائیلاگ کرسکتی ہیں۔ اور خود اسلامی تحریک کے سلسلہ میں سبق اور تحریک حاصل کرسکتی ہیں۔
اس ضرورت کے پیش نظر ہم چند اہم خواتین کی تحریکوں کا تعارف کرارہے ہیں۔ آج کی کڑی میں ہمارے ملک کی ایک اہم اور طاقتور تحریک ہندوتو اور خواتین سے متعلق اس کی پالیسی اور ان میں اس کے نفوذ کا تذکرہ ہوگا۔
ہندوتوا کی تحریک کا اصل مقصد ہندو قوم پرستی کا احیاء، بیرونی مذاہب (اسلام اور عیسائیت) کے ماننے والوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کا اتحاد، ان کے اندر بیداری اور بالآخر’ہندو راشٹر‘ کا قیام ہے۔ اس تحریک کی پشت پر اصل کارفرما تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیموں کا ایک پورا قافلہ جسے سنگھ پریوار کہتے ہیں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ سیاسی محاذ پر بی جے پی، مذہبی محاذ پر وشوا ہندو پریشد، اور بجرنگ دل، طلبہ کے محاذ پر اے بی وی پی، مزدوروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ اور اس طرح دیگر تقریباً ۸۲ تنظیمیں اس پریوار کا حصہ ہیں۔
خواتین کے محاذ پر پریوار کی چار تنظیمیں کارگر ہیں۔ راشٹریہ سیویکا سمیتی، درگا واہنی ماتر شکتی اور بی جے پی مہیلا مورچہ – راشٹریہ سیویکا سمیتی آر ایس ایس کی خواتین ونگ کا نام ہے۔ جب کہ درگا واہنی اور ماتر شکتی کا تعلق وشوا ہندو پریشد سے ہے، جبکہ سیاسی محاذ پر بی جے پی کا مہیلا مورچہ سرگرم ہے۔
راشٹریہ سیویکا سمیتی ۱۹۶۳ء میں وجئے دشمی کے اندر قائم ہوئی۔ لکشمی بائی کیلکر نامی خاتون آر ایس ایس سربراہ ڈاکٹر ہیڈگیوار سے اس درخواست کے ساتھ رجوع ہوئیں کہ خواتین کو بھی آر ایس ایس میں شامل ہونے کا موقعہ دیا جائے۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے یہ درخواست تو مسترد کردی البتہ مشورہ دیا کہ خواتین کی ایک تنظیم الگ سے قائم کی جائے۔ چنانچہ سمیتی کا قیام عمل میں آیا اور لکشمی بائی اس کی پہلی سربراہ یا’’ پرمکھ سنچالیکا‘‘ مقرر ہوئیں۔
سمیتی کا تنظیمی ڈھانچہ اور طریقہ کار وہی ہے جو خود آر ایس ایس کا ہے۔ پرمکھ سنچالیکا کا انتخاب نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر پرمکھ مرنے سے پہلے اپنے جانشین کا تقرر کرتی ہے۔ بنیادی اکائی شاکھا ہوتی ہے جہاں ممبران جمع ہوتی ہیں۔ نظریاتی مباحث (بودھک چرچا) ہوتے ہیں۔ قومی جذبات کی بیداری کے لیے گیت گائے جاتے ہیں۔ ورزش، لاٹھی چلانے کی مشق، جوڈو کراٹوں کی مشق (شریرک) وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ ان شاکھاؤں میں خواتین کو ہندوتو کے کاز کے لیے عوامی مباحث کی تربیت ملتی ہے۔ دو سے پندرہ روز تک کے سالانہ کیمپ (شبیر) بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ سمیتی خواتین کے لیے مراسلاتی کورسیز کا بھی اہتمام کرتی ہے جس کے تحت باقاعدہ تواتر کے ساتھ گھروں پر مطالعہ کا مواد بھیجا جاتا ہے۔ ارکان کی تعداد تو خفیہ رکھی گئی ہے لیکن ملک بھر میں ۳۵۰۰ شاکھائیں کام کررہی ہیں۔ سمیتی کے لٹریچر میں سمیتی کے مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’خواتین کے اندر قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، قوم اور مذہب کے تئیں فرائض کے سلسلہ میں ان کو حساس بنانا (کرتتوا اور نیترتو) اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ مادرِ وطن کی خدمت کے لیے وقف ہوسکیں۔‘‘ اور ’’انہیں تیار کرنا کہ وہ اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کو ہندو قوم پرستی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔‘‘ (راشٹریہ سیویکا سمیتی ایک پریچے — سیویکا پرکاشن متھرا)
اس تحریک کی بنیادیں ان افکار میں ہیں جو ایک لمبے عرصہ سے آریہ سماج، شدھی سنگٹھن، ساورکر، گولوالکر اور ہندو مہاسبھا کے قائدین پیش کرتے آرہے ہیں۔ ان مفکرین نے ہندوستان اور ہندو عوام پر مسلمانوں کے ظلم و ستم کی ایک پوری دیو مالا تشکیل دی ہے۔ علاؤ الدین خلجی سے لے کر نظام دکن تک ہر مسلم دور کے سلسلہ میں ہندو عورتوں کا اغوا، زنا بالجبر اور زبردستی مذہب کی تبدیلی کے ان اگنت واقعات بیان کیے گئے۔ کہا گیا کہ بیوائیں خاص طور پر مسلم حملہ آوروں کے نشانہ پر ہوتی تھیں۔
بعض ہندو مفکرین نے زمانہ کی تقسیم کی – ست یُگ میں جبکہ ہندومت کا بول بالا تھا اور ہندو راج قائم تھا عورتیں سِیر اور سنت ہوا کرتی تھیں۔ روحانی و مذہبی قیادت کے فریضے انجام دیتی تھیں۔‘‘ مہانروان اور دیگر ویدک کتابوں میں عورتوں کی تعلیم پر زور ملتا ہے۔ وہ برہما ودیا کے مطالعہ کے لیے برہمچاری زندگی بھی اختیار کرسکتی تھیں۔‘‘ اس روشن دور کے بعد ان کے مطابق کل یگ آگیا، جب پہلے مسلمان حملہ آوروں نے اور پھر انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کیا۔ اور اسی دور میں ہندو عورتوں کی مظلومیت، بچپن کی شادی، ستی اور پردہ جیسی رسموں کا رواج ہوا۔ بچپن کی شادی اس لیے رائج ہوئی کہ ہندو باپ اپنی بچیوں کو مسلمان حملہ آوروں کے قبضے میں جانے سے بچانا چاہتے تھے جو کنواری لڑکیوں کا اغوا کرلیا کرتے تھے۔ چونکہ بیوائیں بھی ان حملہ آوروں کے نشانہ پر ہوتی تھیں اس لیے ستی کی رسم رائج ہوئی تاکہ عورت کو کم سے کم باعزت موت کا موقع مل سکے۔
سنگھی’ مورخین‘ نے اپنے مخصوص گمراہ کن طرز تحقیق کے ذریعہ ان ساری خرافات کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور بڑے پیمانے پر ’تاریخی لٹریچر‘ اس مقصد کے لیے تیار کیا گیا۔ آج سنگھ پریوار سے وابستہ خاندانوں میں بچپن سے بچوں کو یہ واقعات سنائے جاتے ہیں اور عام خواتین ان باتوں میں یقین رکھتی ہیں۔ ان خود ساختہ تاریخی حقائق کے تناظر میں یہ تنظیمیں خواتین کو اپنے حقوق کے دفاع اور صدیوں کے ظلم و ستم کے انتقام کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی تلقین کرتی ہیں۔ سمیتی کی ایک نظریہ ساز ساوتری دیوی لکھتی ہیں: ’’ہندوستان میں سیاسی بیداری اور قوم پرستی کے فقدان کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہندو خواتین لمبے عرصے سے قومی مسائل میں شرکت سے دور رکھی گئی ہیں۔ ہم سب سے پہلے یہ چاہیں گے کہ مسلم مظالم پر ہندو عورت بے عزتی کا احساس کرے۔ صرف خاندانی بے عزتی نہیں بلکہ پوری ہندو قوم کی بے عزتی پر وہ شرم محسوس کرے۔ اور اپنے شوہروں بھائیوں اور بیٹوں کو اقدام کے لیے آمادہ کرے۔‘‘
ساوتری دیوی کی تحریروں سے جارحیت کے لیے واضح تحریک جھلکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے سمیتی کی نظریہ سازوں نے مذہبی علاقوں کا بھی بھر پور استعمال کیا۔ قدیم دیو مالائی داستانوں کی دیویوں کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ درگا، کالی اور شکتی کی خاص طور پر پوجا کی جانے لگی۔ تاریخی عہد کی عورتوں میں رانی لکشمی بائی، درگاوتی، وِش بالا، اہلیہ بائی، رانی چَنَّما اور میرا بائی کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا گیا۔
یوں تو سمیتی کے اجلاسوں میں ان سب دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ لیکن جدید قوم پرستی کو مذہبی رنگ دینے کی خاطر ایک نئی دیوی ’’بھارت ماتا‘‘ تشکیل دی گئی، سمیتی کی آج یہ ایک اہم ترین دیوی ہے۔
بھارت ماتا کے ساتھ سمیتی نے ایک اور دیوی کی تشکیل کی ہے۔ آٹھ ہاتھوں والی اشتابھوجا، جو مہالکشمی کی دولت، مہاسرسوتی کی عقل، اور مہا درگا کی قوت کا مجموعہ ہے۔ جس کے ایک ہاتھ میں زعفرانی جھنڈا، ایک ہاتھ میں کنول کا پھول، ایک میں بھگوت گیتا اور پھر گھنٹی، (بیداری کی علامت) آگ، تلوار اور گلاب ہوتا ہے، آٹھواں ہاتھ آشیرواد دینے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔
سمیتی ایک طرف خواتین کو بیدار کرکے عملی میدان میں متحرک کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے گھر کی رکھوالی کے روایتی رول کو بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ ان مغربی تحریکوں کی مخالف ہے جو عورت کے لیے مردوں کے مساوی اور یکساں رول کی علم بردار ہیں۔ ان کے مطابق خواتین تمام تخلیقات کا اولین سرچشمہ ’نرماتری‘ ہیں وہ حرکت (گتی) قوت (ادی شکتی) اور پراکرتی ہیں۔ ایک نرماتری اگر خود اپنی ہی تخلیق (یعنی مرد) کے مساوی مقام کا مطالبہ کرے تو یہ اس کے تقدس کی پامالی ہے۔ اس لیے سمیتی کا خواتین سے متعلق نقطہ نظر آزادیٔ نسواں (ناری مکتی) کی بجائے طاقتِ نسواں (ناری شکتی) کے تصور سے عبارت ہے۔
سنگھ کے مشہور مفکر گولوالکر نے اپنی کتاب ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ میں ایک مستقل مضمون عورتوں کو مخاطب کرکے Call to the Motherhoodکے نام سے لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے عورتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہندو قوم پرستی کی تربیت دیں، ہندو قوم کے دشمنوں سے مقابلہ کے لیے تیار کریں اور سب سے اہم یہ کہ ماڈرن بننے سے گریز کریں۔
سمیتی کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو جہاں ایک بہادر جنگجو قوم پرست عورت کی حیثیت سے تیار کرتی ہے وہیں ایک وفادار بیوی، ذمہ دار ماں اور سلیقہ مند گھریلو خاتون کی حیثیت سے بھی تیار کرتی ہے۔ لیکن ان حیثیتوں میں بھی اس کے مخصوص قومی فرائض ہیں۔ بیوی کی حیثیت سے ’’اس کی بہادری اور جرأت نے اس کے شوہر کو شرمندہ کرنا چاہیے اور اسے اس کی مردانگی پر سوال کھڑا کرکے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ عافیت اور بزدلی سے نکل کر اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔‘‘ سمیتی کے ٹریننگ کیمپوں میں عورتیں ایسے مردوں سے نفرت کرنا سیکھتی ہیں جو قوم و ملک کے مفادات سے بے پرواہ صرف اپنی زندگیوں میں مست ہوتے ہیں۔ ایسے مرد ان کے نزدیک بزدل اور نامرد ہیں اور یہ ’’بیویوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے نامردوں کے اندر مردانگی پیدا کریں۔‘‘ ماں کی حیثیت میں عورت کی اولین ذمہ داری سمیتی کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بچوں میں بے خوفی، وطن پرستی، قوم پرستی اور یقینا مسلمان دشمنی کے جذبات پیدا کریں۔
سمیتی کے ساتھ ساتھ اس محاذ پر خواتین کی دوسری فعال تنظیم درگار واہنی ہے، جو وشواہندو پریشد کی خواتین ونگ ہے۔ سمیتی میں زیادہ تر اعلیٰ ذات کی خواتین ہوتی ہیں۔ جب کہ درگا واہنی کی قیادت تو سمیتی سے وابستہ خواتین ہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے لیکن اس کا کیڈر زیادہ تر نچلی ذاتوں کی خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ سمیتی اشراف (Elites) کی تنظیم ہے جبکہ درگا واہنی اس کا عوامی روپ ہے۔ یہ مسلمانوں سے متعلق امور و مسائل، جہیز، عریانیت اور مغربی تہذیب کے احتجاجی اور بعض اوقات جارح پروگراموں کو نافذ کرتی ہے۔ درگا واہنی کے تین بنیادی مقاصد سیوا، سرکشا اور سنسکار ہے یعنی خدمتِ خلق، ہندو قوم کا تحفظ اور دفاع اور اچھے اخلاق کی نشو و نما — اس کی بنیادی اکائی (سمیتی کی شاکھا کی طرز پر) شکتی سادھنا کیندر ہے۔ جہاں خواتین کے ذہن بھی بنائے جاتے ہیں اور جسم بھی۔ یعنی یوگا، ورزش، لاٹھی کی تربیت اور بعض اسلحوں کی تربیت کے ذریعہ انہیں، ہندو قوم کے دفاع کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
درگا واہنی نے بابری مسجد کی مسماری اور گجرات کے فسادات میں بہت سرگرم رول ادا کیا تھا۔ اس پر گجرات میں قتل و غارت گری ہی میں نہیں بلکہ زنا بالجبر کے واقعات میں بھی شمولیت اور بھر پور تعاون کے الزامات ہیں۔ بابری مسجد کی مسماری کے وقت ایودھیا میں موجود دو لاکھ کارسیوکوں میں 55,000 خواتین تھیں۔ یہ سب زیادہ تر درگا واہنی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ درگا واہنی کا پمفلٹ اس موقع پر بہت مشہور ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ عورتوں کے لیے اگنی پرکشا کا موقع ہے۔ اور اس موقع پر انہیں ’’ورنگنا ‘‘اور ’’رن چنڈی‘‘ کا رول ادا کرنا ہے۔
ماتر شکتی بنیادی طور پر ایک رفاہی تنظیم ہے۔ اسکولوں کا نظم و انصرام، پسماندہ بستیوں میں ٹیوشن کلاسوں کا اہتمام، ہاسٹلوں کی تعمیر، کتب خانوں کا قیام، بلڈ ڈونیشن کیمپ اور میڈیکل کیمپ وغیرہ اس کے کام ہیں۔ پسماندہ بستیوں، قبائلی علاقوں وغیرہ میں یہ تنظیم زیادہ فعال ہے۔
سنگھ پریوار کی ساری تنظیمیں مسلم پرنسل لا کے خلاف اور یکساں سول کوڈ کی حامی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر ’’ایک قوم — ایک کوڈ‘‘ ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کی تعمیر، کشمیر سے متعلق خصوصی پیکج کا خاتمہ، پاکستان کے ساتھ دوستی کی بجائے اس سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی، فلسطین کے مقابلہ میں اسرائیل کا ساتھ، دہشت گردی سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی، وغیرہ ان کے دیگر امتیازی خیالات ہیں۔
ان کے بعض قائدین ستی اور جہیز کے خلاف ضرور بولتے ہیں لیکن اصلاً یہ تنظیمیں ان رسومات کی حامی اور انہیں ہندوستانی تہذیب کا قابل فخر جز سمجھتی ہیں۔ روپ کنور کی ستی کے واقعہ کے بعد جب پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر بحث ہورہی تھی، بی جے پی کی نائب صدر اور موجودہ چیف منسٹر راجستھان کی والدہ آنجہانی وجئے راجے سندھیا نے باقاعدہ ایک جلوس کی قیادت کی تھی جس نے اس نعرہ کے ساتھ پارلیمنٹ پرمارچ کیا تھا کہ ستی نہ صرف ایک درخشندہ روایت ہے بلکہ ہندو عورت کا بنیادی حق ہے۔ اس طرح بی جے پی مہیلا مورچہ کی اس وقت کی صدر مردلا سنہا نے سیوی میگزین (Savy April 1994) کو انٹرویو دیتے ہوئے جہیز کے نظام کی پرزور وکالت کی تھی۔
اس جائزہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام اور مسلمان دشمنی کا زہر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کہ ’تریاق‘ پھیلانے کا کام کتنے بڑے پیمانے پر اور کس مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس تیزی کے ساتھ تاریکیاں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ اگر روشنیاں نہ پھیلائی جائیں تو اس ملک کو تاریکیوں میں غرق ہونے سے کون روک سکتا ہے؟
Add new comment