حقیقت انتظار اور اسکی فضیلت روایات کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: مقالہ ھذا میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انتظار کسے کہتے ہیں اور اسکی انتظار کی حقیقت اور فضیلت کیا ہے؟ ان تمام چیزوں کو روایات کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔

 

 

حقیقت انتظار اور اسکی فضیلت روایات کی روشنی میں

انتظار ایک  روحی حالت ہے اور یہ حالت سبب بنتی  ہے کہ انسان آمادہ ہو اس چیز کے لیے کہ جسکا وہ انتظار کررہاہے اور اس کلمہ کے مقابلہ میں ’’نا امیدی‘‘ ہے۔ جتناانتظار زیادہ ہوگا اتنا انسان آمادہ ہوگا مثال کے طور پر انسان کے گھر کسی مہمان کو آنا ہو اور وہ اس کے انتظار میں ہو جتنازیادہ اس کے آنے کا وقت قریب ہوگا، انسان کی آمادگی اس کے استقبال کے لیے زیادہ ہوگی ۔
انتظار کی مختلف منازل ہیں جتنی زیادہ آنے والے سے محبت اور دوستی ہوگی اتنی ہی زیادہ شدت انتظار ہوگی پس انتظار کی کیفیت محبت اور دوستی سے مربوط ہے جتنی زیادہ محبت اور دوستی ہوگی اتنی ہی زیادہ انسان انتظار کی راہ میں مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرے گا یہ تھی حقیقت انتظار ۔
وہ کون سے عناصر ہیں کہ جن سے انتظار تشکیل پاتا ہے ؟منجی بشریت کا انتظار تین عناصر کے بغیر محقق نہیں ہوتا۔
 1۔ عقیدتی عنصر :انسان منجی کے ظہور پر ایمان کامل رکھتا ہو.
 2۔ نفسانی عنصر :انسان ہر وقت ظہور کے لیے آمادہ ہو۔
3۔عملی وسلوکی عنصر:انتظار کرنے والا انسان اپنی استطاعت کے مطابق ظہور کے لیے زمینہ ہموار کرے۔ ان تین عناصر میں سے اگر ایک عنصر بھی نہ ہو تو انتظار حقیقی نہیں کہلائے گا۔
اسلام کے حیات بخش دینی مکتب کی ادبیات میں لفظ"انتظار"کا مفہوم بہت ہی عمیق اور بیش بہا اہمیت کا حامل ہے۔ گویا"انتظار" حق تعالی کی بندگی کا سب سے خوبصورت اور کامل جلوہ اور نمونہ ہے، اس طرح سے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ابراہیم بن محمد بن موید جوینی سنی مذہب کے مشہور محدث سے منقول ہے)اس طرح فرماتے ہیں:
" أَفْضَلُ‏ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ." بہترین عبادت فرج کا انتظار ہے۔[۱]
اسی بات کو ترمذی، شیخ صدوق، شیخ الطائفہ اور علامہ مجلسی نے اس عبارت کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے نقل کیا گیا " أَفْضَلُ‏ أَعْمَالِ‏ أُمَّتِي‏ انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ."[۲]میری امت کا بہترین عمل خداوند متعال سےفرج کا امیدوار ہونا ہے۔
اسی مناسبت سے ہمارے دینی معارف میں انتظار کرنے والے عظیم اور ممتاز حیثیت کے حامل ہیں اور ان لوگوں کی قدرو منزلت کے سلسلہ میں عظیم الشان عبارتیں بیان ہوئی ہیں کہ جس کے نمونے ذیل کی عبارت میں ذکر کئے جارہے ہیں؛ امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا:" وَ الْآخِذُ بِأَمْرِنَا مَعَنَا غَداً فِي حَظِيرَةِ الْقُدْسِ‏ وَ الْمُنْتَظِرُ لِأَمْرِنَا كَالْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ شَهِدَنَا فِي حَرْبِنَا أَوْ سَمِعَ وَاعِيَتَنَا فَلَمْ يَنْصُرْنَا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى مَنْخِرَيْهِ فِي النَّار" ہمارے امر سے متمسک رہنے والے کل ہمارے ساتھ فردوس بریں میں ہوں گے اور ان کے منتظرین ان لوگوں کے مانند ہیں، جنہوں نے راہ خدا میں اپنے خون کی قربانی پیش کی ہو۔[۳]
"امر" اس حدیث میں  ممکن ہے "اوامر"کا مفرد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ "امور" کا مفرد ہو دوسرے احتمال کی بنیادپر حدیث شریف سے شاہد پیش کرنا زیادہ واضح ہے کیونکہ اکابر محدثین نے اسی دوسرے فرضیہ ہی کو قبول کیا ہے۔ اس لئےاسے "انتظارالفرج فی غیبۃ ولی العصر" کے باب میں ذکر کیا ہے۔
امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:" طُوبَى‏ لِشِيعَتِنَا الْمُتَمَسِّكِينَ‏ بِحُبِّنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا الثَّابِتِين‏ عَلَى مُوَالاتِنَا وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِنَا أُولَئِكَ مِنَّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ قَدْ رَضُوا بِنَا أَئِمَّةً فَرَضِينَا بِهِمْ شِيعَةً فَطُوبَى لَهُمْ ثُمَّ طُوبَى لَهُمْ هُمْ وَ اللَّهِ مَعَنَا فِي دَرَجَتِنَا يَوْمَ الْقِيَامَة[۴]" ہمارے شیعوں کو مبارک ہو جو ہمارے قائم کی غیبت کے زمانے میں ہم سے متمسک ہوں گے نیز ہماری دوستی اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی کرنے پر ثابت قدم رہیں گے۔ یہ لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔ وہ لوگ ہماری امامت سے راضی و خوشنود ہیں تو ہم ان کی اس بات سے خوش ہیں کہ وہ ہماری پیروی کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہماری امامت پر راضی ہیں اور ہم اس بات سے راضی ہیں کہ وہ ہمارے شیعہ ہیں مبارک ہو مبارک ہو، خدا کی قسم وہ لوگ قیامت کے دن ہمارے ہم مرتبہ اور ہمارے ساتھ ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[۱]    اکمال الدین، ج/1، ص۲۸۷۔
[۲]  اکمال الدین، ج/۲، ص۲۴۴۔ بحار الانور، ج/۵۲، ص/۱۲۸؛سنن الترمذی، باب الدعوات، ص۱۵۵۔
[۳]  الخصال، ج۲، ص۶۲۵۔
[۴]  اکمال الدین، ج/۲، ص۳۶۱۔      

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48