خلاصہ:امام خمینی (رح) کا اعتقاد تھا کہ " اسلام میں ڈیموکریسی موجود ہے اور اسلام میں لوگ آزاد ہیں، اپنے عقائد کو بیان کرنے میں اور اپنے اعمال میں، بشرطیکہ کوئی سازش پوشیده نہ ہو۔
امام خمینی (رح) ایک دینی مرجع کی حیثیت سے " اسلامی جمہوریہ" کے نام سے دنیا کی سب سے بہتر ڈیموکریٹیک حکومت کی بنیاد ڈالنے والے ہیں ، انہوں نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد ڈال کر ثابت کیا کہ اسلام اور ڈیموکریسی میں نہ صرف آپس میں کسی قسم کا اختلاف اور تضاد نہیں ہے بلکہ یہ دونوں آپس میں جمع بھی ہوسکتے ہیں اور اسلام میں معاشره کو چلانے کے لئے سب سے بهتر ڈیموکریٹیک طریقہ کار موجود ہے۔
اگر ہم ڈیموکریسی کی ایک ایسی روش کےعنوان سے تعریف کریں جس کے مطابق آزاد انسانوں کا اراده اپنے حکام کو انتخاب کرنے یا انہیں معزول کرنے میں اوراپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے میں مداخلت کرنا ہے اور حقیقت میں حکومت کا طریقہ اکثریت کی رائے پر مبنی ہو تو ڈیموکریسی کےبارے میں یہ مطلب امام خمینی (رح) کے خیالات سے تضاد نہیں رکھتا ہے ۔ امام خمینی (رح) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
" یہاں پر لوگوں کی رائے حکومت کرتی ہے ، یہ قوم ہے جس کے ہاتھوں میں حکومت ہے "۔۔۔ قوم کے حکم کی مخالفت کرنا ہم میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے " [1]۔
اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کے کلیدی رول پر امام خمینی (رح) کی تاکید ، ان کی حکومت کے عہده داروں اور پارلیمنٹ کے نمایندوں وغیره کو دئے گئے بیانات ، مکمل گواه ہے۔
امام خمینی (رح) ایک مقام پر پارلیمنٹ کے ممبروں کو قوم و ملت کی راه سے منحرف نہ ہونے کے سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق ڈیموکریسی پر عمل کرنا چاہتے ہوں ، تو ڈیموکریسی یہ ہے کہ اکثریت کی رائے اور وه بھی اس طرح کی اکثریت ، قابل اعتبار ہے۔ اکثریت نے جو کہا اس کی رائے قابل اعتبار ہے اگرچہ اس کے برخلاف ، آپ نقصان میں ہوں ، آپ اس کےولی نہیں ہیں جو یہ کہیں کہ چونکہ یہ تمہارے خلاف ہے اس لئے ہم اسے انجام نہیں دیں گے ، بلکہ آپ اس کے وکیل ہیں۔ [2]
اس بیان سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ امام خمینی (رح) ہر معاشره و ہر قوم کی تقدیر کا فیصلہ اس قوم و معاشره کے اپنے ہاتھوں اور اس کی رائے سے کرنے کے قائل تھے ، امام خمینی (رح) کا اعتقاد تھا کہ: " اسلام میں ڈیموکریسی موجود ہے اور اسلام میں لوگ آزاد ہیں ، اپنے عقائد کو بیان کرنے میں اور اپنے اعمال میں، بشرطیکہ کوئی سازش پوشیده نہ ہو"[3]۔ اس نظام کے قائد کا یہ عقیده ملک کے آئین میں بہت شہرت پا چکا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں اسلام اور ڈیموکریسی کا معاملھ واضح اور نمایاں ہے ، اسلامی جمہوریہ کے آئین میں دینی حکومت اور ڈیموکریٹیک حکومت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ، بلکہ ان کا باہمی رابطه ایک دوسرے کو مشروط اور معین کرنے والا ہے ، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آئین کی روح اور منطق کی بناید پر اسلامی حکومت لازمی طورپر ایک ڈیموکریٹیک حکومت ہے اور شائد اس لئے اسلامی جموریہ کے بانی نے اس قسم کے نظام کے لئے " اسلامی حکومت " کا عنوان منتخب کرنے کی موافقت نہیں کی اور اس کا نام " اسلامی جمہوریہ " رکھنے پر اصرار کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تیسری فصل کی انیسویں اور تیئسویں اصل میں " قوم و ملت کے حقوق" کے عنوان سے آیا ہے کہ " قانون کے مطابق ، بیان ، عقائد ، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں اور مطبوعات کی آزادی میں تمام لوگ مساوی حق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوه آئین کی پانچویں فصل میں " ملت کے حق حاکمیت " کے عنوان سے اسلام میں ڈیموکریسی اور عوامی راج کی وضاحت کی گئی ہے۔[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]امام خمینی (رح)صحیفۂ نور ج ۱۴ / ص ۱۰۹، ج ۹ ص ۳۰۴۔
[۲] صحیفۂ نور، ج ۸ ص ۲۴۷۔
[۳]صحیفۂ نور ، ج ۴ ص ۲۳۴۔
[۴]قانون اساسی جمہوری اسلامی ، مصوب ۱۳۵۸۔ با آخرین اصلاحات، ۱۳۶۸۔
Add new comment